دلت ہندوؤں کی یہ مانگ اسلام آباد میں غیر سرکاری تنظیم ایکشن ایڈ کے زیر اہتمام منعقد ایک تقریب میں سامنے آئی جس میں شیڈول کاسٹ رائٹس تحریک پاکستان میں شامل ہندوؤں نے ملک بھر سے شرکت کی جب کہ حکومتی اور سیاسی نمائندے بھی اس موقع پر موجود تھے۔
ایک غیر سرکاری اندازے کے مطابق پاکستان میں ہندوؤں کی موجودہ آبادی 30سے 40لاکھ ہے جو ملک کی کل اقلیت کا 50فیصد بنتی ہے۔
نچلی ذات کے ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ ہندو آبادی میں ان کا تناسب تقریباً 90فیصد ہے لیکن ان کا الزام ہے کہ گذشتہ 62سالوں میں انھیں پاکستان کے شہری ہوتے ہوئے بھی جائز حقوق نہیں ملے جس کا ملکی دستور میں وعدہ کیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں تحریک کے صدر گروسکھ دیو نے کہا کہ ابھی تک ہندوؤں کی شادی کی رجسٹریشن کے حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں جس کی وجہ سے شادی شدہ جوڑے کے پاس اپنی ازدواجی حیثیت کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا اور انھیں شناختی کارڈ کے حصول،ووٹ کے اندراج، دوران سفر کسی ہوٹل میں قیام اور دیگر کئی خانگی اور قانونی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
تقریب میں موجود وزارت اقلیتی امور کے ایک عہدیدار منیر چوہدری کا کہنا تھاکہ دین اسلام اور پاکستان کے آئین کی روح سے ہندوؤں سمیت تمام اقلیتی برادری یکساں حقوق اور احترام کی مستحق ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ نچلی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہ ہو۔
انھوں نے بتایا کہ ہندو شادی رجسٹریشن ایکٹ کا مسودہ وزارت میں زیر غور ہے جس پر تمام فریقین سے مشاورت کرکے ایک بل کی صورت میں پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔
انھوں نے یقین دلایا کہ دلت برادری کے حوالے سے چھوت چھات کا رویہ بھی قابل مذمت ہے اور وزارت اس کے خلاف بھی بہت جلد قانون متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ دلت برادری تحفظ اور عزت کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکے۔
منیر چوہدری کا کہنا تھا کہ وفاقی سطح پر مقابلے کے امتحان میں شیڈول کاسٹ کے لیے پانچ فیصد ملازمتوں کا کوٹہ مختص ہے اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ صوبائی سطح پر کوٹے میں اضافے کے لیے اقلیتی نمائندوں کو سیاسی طور پر آواز بلند کرنا ہوگی۔
شیڈول کاسٹ ہندوؤں کے ہی ایک اور نمائندے رامیش جے پال یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ ہندوؤں کے جو نمائندے اس وقت پارلیمان میں موجود ہیں وہ تمام نچلی ذات نہیں اونچی ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے بقول دلت ہندوؤں کی صحیح نمائندگی نہیں کرتے۔ ان اکا کہنا تھا ”اگر ہم اپنے مسائل لے کر ہندو نمائندے کے پاس پارلیمان جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ اپنے حلقے کے نمائندے کے پاس جاؤ ، جب ان کے پاس جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ اپنے اقلیتی نمائندے کے پاس جاؤ“۔
دوسری طرف حکمران پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ہندو ممبر قومی اسمبلی رمیش لال نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں اس الزام کو مسترد کیا کہ ایوان اقتدار میں موجود نمائندے نچلی ذات کے مسائل مئوثر طورپر اجاگر نہیں کررہے۔
انھوں نے کہا کہ”ہم ذات پات کی تفریق سے بالاتر ہوکر تمام برادری کے مسائل کے حل کے لیے کام کررہے ہیں اور جنگی علاقوں سمیت ملک کے جس بھی علاقے میں ہندوؤں کو مسائل درپیش ہوتے ہیں ہم نے خود وہاں جاکر ان کا جائزہ لیا“۔
تاہم انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ہندو شادیوں کی رجسٹریشن نہ ہونا واقعی ایک اہم مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی قانون کا مسودہ تیار کررہی ہے اور یہ قانون ہندوؤں کو مبینہ طور پر جبراً مذہب کی تبدیلی کے مسائل کا بھی احاطہ کرے گا۔