رسائی کے لنکس

لاڑکانہ میں ایڈز کے پھیلاؤ کا سبب عطائی ڈاکٹر یا کچھ اور


ٹیسٹ کے لیے اکھٹے کیے گئے خون کے نمونے، فائل فوٹو
ٹیسٹ کے لیے اکھٹے کیے گئے خون کے نمونے، فائل فوٹو

سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں ایک ہی ہفتے کے دوران 67 بچوں سمیت 90 افراد میں ایڈز کے مرض کی نشاندہی ہوئی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس انکشاف کے بعد ضلع بھر میں بڑے پیمانے پر عام شہریوں میں مرض کی تشخیص کے لیے اسکریننگ شروع کر دی گئی ہے۔

ایڈز کے مریضوں کی اتنی بڑی تعداد کی نشاندہی پر ماہرین سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کی کارکردگی پر سوالات اٹھارہے ہیں۔

لاڑکانہ میں اب تک 2300 سے زائد شہریوں کی اسکریننگ کی گئی ہے۔ حکام کے مطابق اس مہلک اور خطرناک بیماری کا شکار ہونے والے بچوں کی عمریں 3 ماہ سے 12 سال کے درمیان ہیں۔

محکمہ صحت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ایڈز کا مہلک مرض پھیلانے کا ذمہ دار ایک عطائی ڈاکٹر ہے جس نے غیر محفوظ انجیکشن سرنج اور آلات استعمال کر کے لوگوں کو اس مہلک بیماری میں مبتلا کیا۔ پولیس نے عطائی ڈاکٹر مظفر گھانگرو کو گرفتار کر کے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

تحقیقات کے لیے ایس ایس پی ضلع لاڑکانہ کی سربراہی میں ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ عدالت میں پیش کرے گی۔

پولیس نے اقدام قتل کی دفعات کے تحت ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ محکمہ صحت کے مطابق ان مریضوں کا علاج آئندہ چند روز میں شروع کر دیا جائے گا۔

ایڈزکے پھیلاؤ پر سول اسپتال کراچی سے ڈاکٹروں کی ایک پانچ رکنی ٹیم لاڑکانہ چلی گئی ہے۔ سول اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹرخادم حسین کے مطابق لاڑکانہ جانے والے ڈاکٹرز اور ٹیکنیشنز کے ساتھ دوائیں اور ٹیسٹ کٹس بھی ہیں جس سے لوگوں کے خون کی اسکریننگ کی جائے گی۔

ایچ آئی وی کنٹرول پروگرام سے منسلک سابق ماہر ڈاکٹر محمد اکرم سلیمان اوٹھو نے ایڈز کے اس پھیلاؤ کو پراسرار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس بارے میں مزید تحقیقات کی ضرورت ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ لاڑکانہ میں ایڈز کے ان کیسز کی وجوہات غیر معیاری آلات اور غیر محفوظ سرنجز کا استعمال بتایا جا رہا ہے، لیکن اس طریقے سے ایڈز کی منتقلی کا امکان صرف 0.3 فی صد تک ہوتا ہے۔ تاہم ان کے مطابق خون کی غیر محفوظ منتقلی کے نتیجے میں یہ مرض لاحق ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ لیکن ابھی اس بارے میں تحقیقات ہونا باقی ہیں۔

ڈاکٹر سلیمان اوٹھو کے مطابق سندھ میں کراچی اور لاڑکانہ ایڈز کے حوالے سے ہائی رسک ایریاز تصور کیے جاتے ہیں۔ لاڑکانہ میں 1994-95 میں ایڈز کے اولین مریض کا انکشاف ہوا تھا جو جیل کا ایک قیدی تھا۔

انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر مریض سرنج کے ذریعے منشیات استعمال کرنے، جنسی بے راہ روی یا خون کی غیر محفوظ منتقلی کی وجہ سے اس مہلک مرض کا نشانہ بنتے ہیں۔ جب کہ لاڑکانہ کے واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام میں ضرور کہیں کمی اور کوتاہی پائی جاتی ہے جس کے باعث اس ہائی رسک علاقے میں اسکریننگ نہیں ہو سکی اور ایک ساتھ اتنے زیادہ کیسز سامنے آ گئے۔

ادھر محکمہ صحت سندھ کی اپنی رپورٹ کے مطابق لاڑکانہ میں 300 کے قریب عطائی ڈاکٹر موجود ہیں، جن کے غلط اور غیر محفوظ طریقہ علاج کے سبب لوگوں کی ایک بڑی تعداد میں اس طرح کے امراض کا نشانہ بن جاتی ہے۔ انتظامیہ عطائی ڈاکٹروں کے خلاف کارروائیاں کرتی ہے لیکن کچھ عرصے کے بعد یہ سلسلہ پھر سے شروع ہو جاتا ہے۔

صوبے میں اس وقت 10 ہزار سے زیادہ ایڈز کے رجسٹرڈ مریض ہیں جن کا علاج حکومتی خرچ پر ہوتا ہے، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ اس مرض میں مبتلا لوگوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG