وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ملک میں انسانی حقوق کی پامالی ریاست کی طرف سے نہیں بلکہ اُن کے بقول دہشت گردوں کی جانب سے ہو رہی ہے۔ اُنھوں نے یہ بات انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان”ایچ آر سی پی“ کی سالانہ رپورٹ میں 2009ء کے دوران ملک میں انسانی حقوق کی غیر تسلی بخش صورتحال کے جواب میں وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہی۔
وزیراطلاعات نے کہا کہ ملک کے ریاستی ادارے دہشت گردی کے خاتمے ، لوگوں کی جان و مال کی حفاظت اور پاکستان کے وقار کے لیے بھرپور قربانیاں دے رہے ہیں۔
قمرزمان نے کہا کہ گذشتہ سال کے دوران پارلیمان کا کردار انتہائی اہم رہا۔ اُنھوں نے کہا کہ وزیراعظم نے خود قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کر کے سوالات کے جوابات دیے۔ ملک میں آزادی صحافت کے بارے ایک سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہاکہ حکومت برداشت پر یقین رکھتی ہے اور اُن کی جماعت کے دور حکومت میں میڈیا سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد یا گروپ کے خلاف کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔
ایچ آرسی پی نے گذشتہ روز اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا تھا کہ قانون سازی میں منتخب پارلیمان کا کردار کم اور صدارتی آرڈیننسوں کا عمل دخل زیادہ رہاجب کہ متنازع قومی مصالحتی آرڈیننس ”این آر او“ کو بھی بحث کے لیے پارلیمان میں پیش نہیں کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق پارلیمان نے صرف چار قانون منظور کیے جب کہ صدر کی طرف سے 61آرڈیننس جاری ہوئے۔ جب کہ میڈیا کی آزادی کے بارے میں بھی انسانی حقوق کمیشن میں بعض تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
مسلم لیگ(ق) سے تعلق رکھنے والے رکن سینٹ اور معرو ف قانون دان ایس ایم ظفر کا کہنا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں گذشتہ ایک سال کے دوران انسانی حقوق کی صورت حال تسلی بخش نہیں رہی ۔ اُنھوں نے ایچ آر سی پی کی سالانہ رپورٹ میں عدلیہ کے کردار کے حوالے سے اُٹھائے جانے والے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر ضرور پیدا ہوا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے بہت سے فیصلے ایک جماعت کے حق میں گئے ہیں تاہم اُنھوں نے کہا کہ انسانی حقو ق کے معاملے عدلیہ بغیر کسی تفریق کے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے۔
ایس ایم ظفر نے کہا کہ گذشتہ سال کے دوران پارلیمنٹ صدر کے اختیار ات میں کمی ، این آر او، ملک میں بجلی کی قلت اور روٹی کپڑا مکان جیسے معاملات میں اُلجھی رہی جس کے باعث اُن کے بقو ل زیادہ قانون سازی نہیں ہو سکی۔