رسائی کے لنکس

’اگر بچے محفوظ نہ ہوں تو پھر ترقی کا کوئی فائدہ نہیں‘


وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان دنیا بھر میں چائلڈ پورنوگرافی میں پہلے نمبر پر تھا۔ انھوں نے کہا ہے کہ، ’’بچوں سے زیادتی اور احتیاطی تدابیر کے حوالے سے باب نصاب میں شامل ہونا چاہیے اور اس معاملے پر سرکاری اسکولوں میں مہم چلانی چاہئے، چونکہ اگر بچے محفوظ نہ ہوں تو پھر ترقی کا کوئی فائدہ نہیں‘‘۔

شیریں مزاری نے کہا ہے کہ ’’زینب الرٹ بل پر سیاست نہیں ہونی چاہیے‘‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی بل کو جلد از جلد قومی اسمبلی بھیجے، تاکہ اسے منظور کرایا جا سکے۔

بقول ان کے، ’’بد قسمتی سے، چائلڈ پورنو گرافی میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے۔ ملک میں بچوں سے جنسی بدسلوکی میں اضافہ ہو رہا ہے‘‘۔

شیریں مزاری نے کہا ہے کہ ’’شرم کی بات ہے کہ ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ بچوں پر جنسی تشدد کی روک تھام کیلئے اساتذہ، والدین، میڈیا، سول سوسائٹی سمیت پورے معاشرے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس معاملے پر بڑے پیمانے پر بحث و مباحثے کی ضرورت ہے، تاکہ لوگوں کو آگہی فراہم کی جا سکے‘‘۔

اس حوالے سے بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن ممتاز گوہر کہتے ہیں کہ ’’گذشتہ سال پاکستان میں 3800 سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات پیش آئے۔ ان کیسز میں زیادہ تر قریبی عزیزوں نے ہی بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ ’’ان میں سے 93 بچوں کو قتل کر دیا گیا‘‘۔

فروری میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں ڈی جی ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ، کیپٹن ریٹائرڈ محمد شعیب نے انکشاف کیا تھا کہ ’’پاکستان میں چائلڈ پورنوگرافی ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ پاکستان میں چائلڈ پورنو گرافی کے سرے بین الاقوامی مافیا تک جاتے ہیں۔ قصور میں چائلڈ پورن دس روپے میں بھی مل جائے گا۔‘‘

سماجی کارکن فرزانہ باری کہتی ہیں کہ اس مسئلے کو مانا تو جا رہا ہے، لیکن اس کے لیے عملی طور پر اقدامات نظر نہیں آ رہے۔ اس مقصد کے لیے تمام حکومتی اور ریاستی اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا اور ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانا ہوگا۔

پاکستان میں ایف آئی اے نے اس حوالے سے مختلف ممالک کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نشاندہی پر کئی گروہوں کو پکڑا ہے، جو پاکستان میں یہ کاروبار منظم انداز میں کر رہے تھے۔

XS
SM
MD
LG