رسائی کے لنکس

قصور: بچوں سے ’جنسی زیادتی‘ کی تحقیقات جاری


مظاہرین کی پولیس سے جھڑپ بھی ہو چکی ہے۔ فائل فوٹو
مظاہرین کی پولیس سے جھڑپ بھی ہو چکی ہے۔ فائل فوٹو

حکام کے بقول ان میں بعض متاثرین بعد میں خود بھی مبینہ طور پر بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے والوں میں شامل ہیں۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے کہا ہے کہ قصور میں بچوں سے مبینہ ’جنسی زیادتی‘ کے واقعات کی تحقیقات عدالتی کمیشن سے کروائی جائے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ اس میں ملوث ہر شخص کو قانون کے کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزا دلوائی جائی گی۔

قصور میں مبینہ طور پر 270 بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات اور ان کی وڈیوز بنا کر متاثرین کو بلیک میل کرنے کا معاملے پر نہ صرف پاکستان کے ذرائع ابلاغ بلکہ سوشل میڈیا پر بھی بحث جاری ہے جب کہ حکام کا کہنا ہے کہ چھ ملزمان کو گرفتار کر کے ان سے تفتیش کی جاری ہے۔

گزشتہ ماہ یہ خبریں منظر عام پر آئی تھیں کہ قصور کے ایک دیہات حسین آباد میں گزشتہ چھ سالوں کے دوران درجنوں بچوں کو متعدد افراد مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے اور اس کی وڈیو بنا کر ان کے والدین کو بلیک میل کرتے رہے۔

ان واقعات کی علاقہ مکینوں کے بقول پولیس کو اطلاع بھی دی گئی لیکن ان کے بقول ملزمان اپنے اثرورسوخ کی وجہ سے قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔

اسی ہفتے ان مبینہ واقعات کے خلاف علاقے کے لوگوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور اس دوران ان کی پولیس سے جھڑپ بھی ہوئی۔

شیخوپورہ کے ریجنل پولیس افسر شہزاد سلطان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ جنسی زیادتی کے واقعات ضرور ہوئے ہیں لیکن ذرائع ابلاغ میں جو تعداد بتائی جا رہی ہے وہ درست نہیں۔

ان کے بقول چھ ملزمان گرفتاری کے بعد ریمانڈ پر ہیں جب کہ ایک نے ضمانت حاصل کر رکھی ہے۔

شہزاد سلطان کے مطابق علاقے میں 18 سے 20 ایکڑ رقبے کا تنازع ہے جس کی وجہ سے مخالفین ایک دوسرے کے خلاف مختلف الزامات اور مقدمات میں الجھے ہوئے ہیں۔

اس مبینہ معاملے کو ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اور بدترین جنسی اسکینڈل قرار دیتے ہوئے حکومت پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔

علاقے کی پولیس کا کہنا ہے کہ یہ مبینہ واقعات 2007ء سے 2013ء کے درمیان ہوئے اور انھوں نے 60 سے 70 وڈیو کلپس بھی قبضے میں لیے ہیں۔

حکام کے بقول ان میں بعض متاثرین بعد میں خود بھی مبینہ طور پر بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے والوں میں شامل ہیں۔

XS
SM
MD
LG