رسائی کے لنکس

آئی ایم ایف: بہتر کارکردگی پر پاکستان کے لیے قسط منظور


مالیاتی ادارے کے بورڈ کے قائم مقام سربراہ ڈیوڈ لیپٹن کا کہنا تھا کہ معیشت کو مستحکم اور اہم اصلاحات کرنے میں پاکستان کی پیش رفت ’’قابل تعریف‘‘ ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے معیشت کو استحکام دینے سے متعلق نواز شریف انتظامیہ کے اقدامات کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کو ’فوری‘ 55 کروڑ ڈالرز کی قسط دینے کا اعلان کیا ہے۔

قسط کے اجرا کی منظوری ادارے کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں دی گئی جس میں آئی ایم ایف کے ساتھ 6 ارب 78 کروڑ ڈالرز قرضے کے معاہدے کے تحت اسلام آباد کی اقتصادی اور توانائی کے شعبوں میں کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔

مالیاتی ادارے کے ایک بیان کے مطابق بورڈ کے قائم مقام سربراہ ڈیوڈ لیپٹن کا کہنا تھا کہ معیشت کو مستحکم اور اہم اصلاحات کرنے میں پاکستان کی پیش رفت ’’قابل تعریف‘‘ ہے تاہم ’’اقتصادی صورتحال بدستور مشکلات کا شکار ہے اور اس کی کمزوریوں کو کم کرنے کے لیے ابھی مزید کام کرنا ہوں گے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ محصولات کا دائرہ وسیع کرنے اور اس نظام کو بہتر بنانے کے لیے اضافی کوششیں کرنا ہوں گی۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ غربت کی شکار آبادی کے لیے مالی معاونت کی اسکیموں کے لیے مختص رقم کا دوسرے منصوبوں پر خرچ بھی روکنا چاہیئے اور حکومتی قرضوں کو بہتر انداز میں منظم کیا جائے۔

’’مالیاتی پالیسی کا مرکزی نکتہ زیادہ تر مہنگائی کا دباؤ قابو میں رکھنا ہونا چاہیئے اور ہر ممکن کوشش ہونی چاہیئے کہ حکومت کے اسٹیٹ بنک سے حاصل کردہ قرضے کو کم کرکے (آئی ایم ایف) پروگرام میں طے شدہ ہدف میں لایا جانا چاہیئے۔‘‘

اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ میں رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ملک کی مجموعی شرح نمو میں پانچ فیصد تک اضافہ بتایا گیا تاہم ان تین ماہ میں نا صرف حکومت کے اسٹیٹ بنک اور دیگر بنکوں سے قرضے ایک کھرب روپے تک پہنچ گئے بلکہ مہنگائی میں بھی 8.1 فیصد تک اضافہ ہوا۔

حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ رانا محمد افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آئی ایم یف کی طرف سے حکومت کے اقدامات کی توثیق غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی طرف راغب کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اقتصادی اور توانائی کے شعبوں میں ابھی مزید موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

’’یہ ثقافتی انحطاط ہے کہ ایک ایسا نظام بن چکا ہے کہ ٹیکس ادا کیے بغیر آپ کی گاڑی چلتی رہتی ہے۔ تو ٹیکس دینا ایک نئی مصیبت لگ رہا ہے لوگوں کو۔ اس پر کچھ وقت لگے گا۔ ‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ملک کی سلامتی کی صورتحال بھی معیشت سے منسلک ہے اس لئے ان کے بقول اس میں جلد اور دیرپا بہتری وقت کی ضرورت ہے۔

وزارت خزانہ کے مطابق پہلے آٹھ ماہ میں برآمدات کا حجم تقریباً 17 ارب ڈالرز اور ترسیلات زر 10 ارب ڈالرز سے بھی بڑھ گئیں۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر مجموعی طور پر 9 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر گئے ہیں۔

آئی ایم ایف کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بنک کو بحیثیت خود مختار ادارہ بنانے کے لیے حکومت وقت ضائع کیے بغیر پارلیمان میں ایک قانونی مسودہ منظوری کے لیے پیش کرے۔

انھوں نے نواز انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ توانائی کے شعبے کو کسی قاعدے کے تحت لانے کے عمل کو مضبوط کرے اور حکومت کے ’’کمزور‘‘ اداروں کی نجکاری میں پیش رفت کرے۔

سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ کہتے ہیں کہ نواز انتظامیہ کو نجکاری کا عمل تیز کرنے سمیت توانائی کے شعبے میں اصلاحات کرتے ہوئے اس کے نظام کو بھی جلد بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

’’70 فیصد معیشت اب بھی حکومت کے رحم و کرم پر ہے تو مارکیٹ اکانومی کے لیے اصلاحات بھی ابھی تک پوری طرح سے نہیں ہوئیں۔ توانائی کی خریدار صرف حکومت ہے تو ہمیں اسے تبدیل کرنا ہوگا۔ حکومت مارکیٹ کو باہر سے چلاتی ہے نا کہ ہماری طرح حکومت خود مارکیٹ میں گھسی ہوئی ہو۔ ‘‘

اسٹیٹ بنک کے مطابق مالی سال 14۔2013 میں پاکستان کی مجموعی شرح نمو 4 فیصد سے کم اور مالی خسارہ 6 اور سات فیصد کے درمیان رہے گا۔
XS
SM
MD
LG