رسائی کے لنکس

سعودی دباؤ کے بعد پاکستان بظاہر مشکل میں: تجزیہ کار


سعودی وزیر خارجہ عبدل الجبیر نے جمعرات کو پاکستان کو دورہ کیا تھا۔
سعودی وزیر خارجہ عبدل الجبیر نے جمعرات کو پاکستان کو دورہ کیا تھا۔

حسن عسکری رضوی کا کہنا تھا کہ پاکستان کو خود ایران سے رابطہ کر کے اپنا مؤقف واضح کرنا چاہیئے تاکہ دونوں ممالک سے پاکستان کے تعلقات کا توازن خراب نہ ہو۔

ایک ہفتہ قبل سعودی عرب اور ایران کے درمیان شدید کشیدگی پیدا ہونے کے بعد حکمران جماعت اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں نے حکومت سے کہا تھا کہ وہ اس معاملے میں غیر جانبدار رہے۔ تاہم سعودی عرب کی طرف سے سفارتی دباؤ بڑھنے کے بعد پاکستانی حکومت کی مشکلات میں بظاہر اضافہ ہوا ہے۔

گزشتہ جمعرات کو سعودی عرب کے وزیر خارجہ عبدل الجبیر نے پاکستان کا دورہ کیا جس کے بعد اتوار کو سعودی وزیر دفاع محمد بن سلمان السعود نے بھی وزیراعطم نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے اسلام آباد میں ملاقاتیں کیں۔

مشرق وسطیٰ کے حریف ممالک سعودی عرب اور ایران کے درمیان اس وقت شدید کشیدگی پیدا ہو گئی تھی جب سعودی عرب کی طرف سے ایک شیعہ عالم دین کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں سعودی سفارتخانے پر مظاہرین نے حملہ کیا۔ حملے کے رد عمل میں سعودی عرب نے ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے۔

تجزیہ کار حسن عسکری رضوی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سعودی عرب کی طرف سے سفارتی دباؤ بڑھنے کے بعد پاکستان اس وقت مشکل صورتحال میں ہے۔

’’سعودی سفارتی دباؤ تو یہ ہے کہ پاکستان مکمل طور پر سعودی عرب کے ساتھ جائے جس طرح خلیج تعاون تنظیم کے ارکان گئے ہیں، لیکن پاکستان نے کیا یہ ہے اپنا جھکاؤ تو ظاہر کیا ہے سعودع عرب کی طرف لیکن (اس کے مؤقف کی) مکمل حمایت سے بچنے کی کوشش کی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہی وجہ ہے کہ جب ان کے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع آئے تو اس وقت جو بیان جاری (کیے گئے) اس میں پاکستان (نے) ایک آدھ جملہ ڈال (دیا) کہ معاملات کو گفتگو سے، مذاکرات سے حل کرنا چاہیئے۔‘‘

اگرچہ گزشتہ ہفتے اعلیٰ سعودی عہدیداروں نے پاکستان کا دورہ کیا مگر ان دوروں کے بعد ایران کی طرف سے ایسے کسی رابطے کی خبر سامنے نہیں آئی اور نہ ہی کسی ایرانی عہدیدار نے پاکستان کا دورہ کیا۔

حسن عسکری رضوی کا کہنا تھا کہ پاکستان کو خود ایران سے رابطہ کر کے اپنا مؤقف واضح کرنا چاہیئے تاکہ دونوں ممالک سے پاکستان کے تعلقات کا توازن خراب نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ کشیدگی کو کم کروا سکے کیونکہ اس کا سعودی عرب کی طرف جھکاؤ بڑا واضح ہے۔

ہفتے کو وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا تھا ثالثی کے لیے صحیح وقت کا انتظار کرنا ہو گا کیونکہ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان شدید تناؤ کی کیفیت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمیں اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں شیعہ سنی برادریوں کے درمیان کشیدگی نہ پیدا ہو اور دہشت گرد اس کا فائدہ نہ اٹھا سکیں۔

قانون سازوں کی طرف سے اس مطالبے کے بعد کہ حکومت اس معاملے پر انہیں آگاہ کرے، سرتاج عزیز منگل کو سینیٹ اور قومی اسمبلی کی خارجہ امور سے متعلق قائمہ کمیٹیوں کو بند کمرے میں بریفنگ دیں گے۔

دریں اثنا پیر کو اسلام آباد میں ایران کے نئے سفیر مہدی ہنردوست نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے خارجہ امور طارق فاطمی سے ملاقات کی اور دونوں ممالک کے تعلقات کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔

XS
SM
MD
LG