رسائی کے لنکس

ملک ’بے مقصد سیاسی مہم جوئی‘ کا متحمل نہیں ہو سکتا: صدر ممنون


پاکستان کے صدر مملکت (فائل فوٹو)
پاکستان کے صدر مملکت (فائل فوٹو)

تحریک انصاف کے رہنما کا کہنا ہے کہ اپنے مطالبات کی منظوری تک وہ اور ان کے کارکن اسلام آباد میں دھرنا دیں گے۔

پاکستان کے صدر مملکت ممنوں حسین نے ملک کی سیاسی قیادت کو ’’سنجیدہ و ذمہ دارانہ‘‘ کردار ادا کرنے کا کہتے ہوئے کہا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف لڑی جانے والی حتمی جنگ کو مدنظر رکھتے ہوئے وطن کسی ’’بے مقصد سیاسی مہم جوئی‘‘ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے یہ بات یوم آزادی کے موقع پر ایوان صدر میں منعقدہ تقریب میں کہی جس میں وزیراعظم نواز شریف، ان کی کابینہ کے اراکین سمیت افواج پاکستان کی سربراہان اور اعلیٰ سرکاری اور عسکری عہدیداروں نے شرکت کی۔

صدر مملکت کا بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا جب حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں دارالحکومت میں حکومت مخالف احتجاجی دھرنا دینے لاہور سے آرہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا مطالبہ ہے کہ نواز شریف وزیراعظم کے عہدے سے علیحدہ ہوں اور سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل ایک کمیشن کے ذریعے گزشتہ عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلوں کے الزامات کی تحقیقات کروائی جائے اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی ہو۔

تحریک انصاف کے رہنما کا کہنا ہے کہ اپنے مطالبات کی منظوری تک وہ اور ان کے کارکن اسلام آباد میں دھرنا دیں گے۔

نواز انتظامیہ میں شامل عہدیدار عمران خان کے اس مطالبے کو ماورائے آئین قرار دیتے ہوئے وزیراعظم کے استعفے کے امکان کو رد کر چکے ہیں۔

صدر ممنون حسین نے جمعرات کو اپنے خطاب میں پاکستانیوں پر زور دیا کہ وہ ان افراد کو مسترد کریں جو حکومت کے ترقیاتی و اقتصادی منصوبوں کی تکمیل میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔

’’ملک کسی بے مقصد سیاسی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہو سکتا جب وہ اپنی بقا اور استحکام کی جنگ لڑ رہا ہے۔ پاک افواج ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کرنے کے لئے بے مثال قربانیاں دے رہی ہیں۔‘‘

عمران خان اور دیگر احتجاج کرنے والی سیاسی جماعتوں کے رہنما یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی بھی فوجی مداخلت یا بغاوت کے سخت مخالفین ہیں اور ان کے احتجاج کا مقصد جمہوری نظام کا خاتمہ نہیں بلکہ اسے شفاف اور مستحکم بنانا ہے۔

ممنون حسین نے پاکستان کی خارجہ پالیسی سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تمام ممالک اور بالخصوص اپنے ہمسایہ ملکوں سے تعلقات بہتر اور مضبوط رکھنے کا خواہاں ہے۔

’’ہم نا کسی کے خلاف جارحیت کرنا چاہتے ہیں نا کسی کی بالادستی قبول کرنے کو تیار ہیں۔ ہم اس پالیسی کا اعادہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں ظلم کے شکار کشمیری اور فلسطینی عوام کو بھی نہیں بھولنا چاہیئے جو کہ توقع کرتے ہے کہ نا صرف مسلم امہ بلکہ انصاف و امن پر یقین رکھنے والے ممالک انہیں اس سے نجات دلاکر حق خود ارادیت کے حصول میں مدد دیں گے۔‘‘

صدر مملکت کے سیاسی صورتحال سے متعلق بیان پر تحریک انصاف کے سینئیر رہنما اور قانون ساز اسد عمر کا کہنا تھا۔

’’بڑی اچھی بات کی ہے اور حکومت کو بر وقت تنبیہ کی ہے۔ بالکل انتشار نہیں ہونا چاہیئے لیکن یا دلاتا چلوں کہ جب ان کی پنجاب حکومت کو ہٹا کر گورنر راج لگا دیا گیا تھا۔۔۔ تو جس طرح وہ نکلے تھے اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے ہم بھی نکلے ہیں۔‘‘

بعض مبصرین اس خدشے کا اظہار کرتے آئے ہیں کہ مظاہرین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے درمیان ممکنہ تصادم سے پیدا ہونے والی صورتحال فوج کی مداخلت کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔

تاہم حکومت میں شامل اعلیٰ عہدیدار بھی حزب اختلاف کے اس ’’آزادی مارچ‘‘ کے تناظر میں فوجی مداخلت کو مسترد کر چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے تعلقات فوج سے ’’بہت اچھے‘‘ ہیں۔

XS
SM
MD
LG