رسائی کے لنکس

بھارت کی 'جارحیت' کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں: وزیردفاع


وزیراعظم نواز شریف نے جمعہ کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کر رکھا ہے جس میں ملک کی سیاسی و عسکری قیادت صورتحال پر غور کرے گی۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان ورکنگ باؤنڈری اور متنازع علاقے کشمیر کی حدبندی لائن پر ایک دوسرے پر فائر بندی کی خلاف ورزیوں کے الزامات اور واقعات کا سلسلہ تو جاری ہی ہے لیکن جمعرات کو دونوں ملکوں کے وزرائے دفاع کی طرف سے بھی اس تناظر میں سخت بیانات سامنے آئے۔

پاکستانی وزیردفاع خواجہ محمد آصف نے ایک بیان میں کہا کہ ان کا ملک بھارت کی کسی بھی 'جارحیت' کا بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نہیں چاہتا ہے کہ دو ایٹمی ہمسایہ ملکوں کے درمیان سرحدی کشیدگی محاذ آرائی میں تبدیل ہو۔ انھوں نے بھارت پر زور دیا کہ وہ ذمہ داری کا ثبوت دے۔

اس سے قبل بھارت کے وزیردفاع ارون جیٹلی کی طرف سے بھی جمعرات کو ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں انھوں نے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات پر پاکستان کو متنبہ کیا تھا۔

سرحد پر کشیدگی کے تناظر میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے جمعہ کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کر رکھا ہے جس میں ملک کی سیاسی و عسکری قیادت صورتحال پر غور کرے گی۔

رواں ماہ کے اوائل ہی سے ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے جس سے اب تک کم ازکم دس پاکستانی شہری اور آٹھ بھارتی ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس کشیدہ صورتحال میں سرحد کے قریب واقع بہت سے دیہاتوں سے لوگوں نے محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہونا بھی شروع کر دیا ہے۔

پاکستانی فوج نے ایک تازہ بیان میں بتایا کہ بھارت کی مبینہ اشتعال انگیز فائرنگ سے پاکستانی علاقوں میں کم ازکم 42 لوگ زخمی بھی ہوئے۔ بیان کے مطابق ان کارروائیوں کا پاکستانی فورسز بھرپور جواب دیتی آرہی ہیں۔

دونوں ہمسایہ ملکوں اور روایتی حریفوں کے درمیان کشمیر شروع ہی سے وجہ تنازع ہے اور لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور گولہ باری کا تبادلہ کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ لیکن 2003ء میں فائربندی کے معاہدے کے بعد گزشتہ سال اور رواں ماہ اس میں خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

پاکستانی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ ان کا ملک بھارت کے ساتھ اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات چاہتا ہے لیکن اس کے لیے بھارت کی طرف سے مثبت جواب ملنا ضروری ہے۔

حکمران مسلم لیگ ن کے سینیٹر راجہ ظفر الحق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اقتدارمیں آنے کے بعد سے ہی وزیراعظم نواز شریف بھارت سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔

"پاکستان کو ویسے بھی چاہتا ہے کہ نریندر مودی صاحب کے پس منظر کے باوجود بھارت کے ساتھ تعلقات معمول کے مطابق رکھے جائیں تو اس میں کوئی (بھارت کو) دقت نہیں ہونی چاہیے۔"

بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ایک سخت گیر مذہبی رجحان رکھنے والی جماعت خیال کی جاتی ہے۔ رواں سال اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم مودی اس بات کا تذکرہ کر چکے ہیں کہ وہ بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری چاہتے ہیں لیکن ان کے بقول اس کے لیے ماحول کا سازگار ہونا بھی ضروری ہے۔

بھارت نے اگست میں اسلام آباد میں ہونے والے سیکرٹری خارجہ سطح کے مذاکرات یہ کہہ کر منسوخ کر دیے تھے کہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر نے علیحدگی پسند کشمیری رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں جو کہ دوطرفہ تعلقات کے تناظر درست نہیں۔

تاہم پاکستان کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی ان کے سفارتکار مختلف سیاسی و سماجی رہنماؤں سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں اور یہ کوئی ایسی اچنبھے کی بات نہیں۔

XS
SM
MD
LG