رسائی کے لنکس

غیر رسمی سفارت کاری باضابطہ مذاکرات کا نعم البدل نہیں: پاکستان


ترجمان تسنیم اسلم
ترجمان تسنیم اسلم

ترجمان تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹا اور اس کا ماننا ہے کہ بات چیت خطے میں امن اور استحکام کے لیے بہت ضروری ہے۔

جنوبی ایشیا کی دو ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے مابین تعلقات حالیہ مہینوں میں شدید کشیدہ رخ اختیار کر چکے تھے لیکن گزشتہ ہفتے ان میں کچھ بہتری آثار نمودار ہوئے ہیں۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ بھارت کی طرف سے اپنے سیکرٹری خارجہ کو اسلام آباد بھیجنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہے اور دونوں ملکوں کے اعلیٰ سفارتی عہدیداروں کے درمیان دو طرفہ دلچسپی کے تمام امور زیر بحث آئیں گے۔

دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے جمعہ کو اسلام آباد میں ہفتہ وار پریس بریفنگ میں بتایا کہ بھارت کے ساتھ غیر رسمی سفارتکاری کا سلسلہ تو چلا آرہا ہے لیکن یہ باقاعدہ اور براہ راست مذاکرات کا نعم البدل نہیں ہوسکتی۔

بھارت سے غیر رسمی سفارت کاری باضابطہ مذاکرات کا نعم البدل نہیں: پاکستان
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:49 0:00

"ہمارا ماننا ہے کہ غیر رسمی سفارتکاری اور تبادلے مثبت تو ہیں لیکن یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان براہ راست مذاکرات کی جگہ نہیں لے سکتے اور اس کا نعم البدل نہیں ہیں۔ دنوں ملکوں کے معاملات مذاکرات کے ذریعے حل ہونے چاہئیں اور اس کے لیے باضابطہ مذاکرات بہت اہم ہیں۔"

بھارت نے گزشتہ اگست میں سیکرٹری خارجہ سطح کے طے شدہ مذاکرات کو یک طرفہ طور پر منسوخ کر دیا تھا جس کے بعد پاکستان کا موقف رہا ہے کہ اب بات چیت میں پہل بھارت ہی کو کرنا ہوگی۔

گزشتہ ہفتے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے پاکستانی ہم منصب نواز شریف کو فون کر کے بتایا تھا کہ ان کے سیکرٹری خارجہ جلد پاکستان آئیں گے۔

ترجمان تسنیم اسلم کا اس بارے میں کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹا اور اس کا ماننا ہے کہ بات چیت خطے میں امن اور استحکام کے لیے بہت ضروری ہے۔

"ہم نے کبھی بھارت کے ساتھ مذاکرات سے راہ فرار اختیار نہیں کی۔ ہم بھارتی سیکرٹری خارجہ کو پاکستان بھیجنے کے بھارتی وزیراعظم کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اس کی حتمی تاریخ ابھی طے نہیں کی گئی۔ دونوں سیکرٹری خارجہ باہمی دلچسپی کے تمام امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔"

رواں ہفتے ہی بھارت کے ایک اعلیٰ سکیورٹی عہدیدار کی طرف سے سال نو کی پہلی شب ایک پاکستانی کشتی کو دھماکے سے اڑانے کا بیان سامنے آنے کے بعد دونوں جانب سے کچھ بیان بازی ہوئی لیکن یہ معاملہ سر دست روایتی حریفوں کے درمیان کسی تلخی کا باعث نہیں بن سکا۔

بھارت کا کہنا تھا کہ ایک پاکستانی کشتی جس پر بارود لدا ہوا تھا اسے اس پر سوار افراد نے اس وقت دھماکے سے اڑا دیا جب انھیں بھارتی سرحدی محافظوں نے رکنے کے لیے کہا۔

لیکن دو روز قبل بھارتی ذرائع ابلاغ میں کوسٹ گارڈ فورس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل کا یہ بیان سامنے آیا کہ انھوں نے خود اس کشتی کو تباہ کرنے کے لیے اپنے اہلکاروں کو حکم دیا تھا۔ تاہم بعد میں بھارتی وزیردفاع منوہر پاریکر نے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ سراسر غلط ہے اور بھارت اپنے پہلے موقف پر ہی قائم ہے۔

اس بھارتی عہدیدار کے خلاف تفتیش اور انضباطی کارروائی شروع ہے جب کہ پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان کے بقول "نام نہاد دہشت گرد کشتی" کے بارے میں بھارت کے دعوے کی قلعی سب کے سامنے کھل چکی ہے۔

اس سارے منظر نامے میں ایک خبر یہ بھی ابھری ہے پاکستان نے بھارت کی طرف سے دریائے چناب اور جہلم پر پانچ پن بجلی گھروں کی تعمیر کے خلاف بین الاقوامی ثالثی کی عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان پچاس سال سے زائد پرانے سندھ طاس معاہدے کو لے کر دریاؤں میں پانی کے بہاؤ پر بھی تنازع چلا آرہا ہے اور اکثر مبصرین اسے دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید الجھاؤ کا سبب بنتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG