رسائی کے لنکس

امن و استحکام کے لیے علاقائی تعاون کے فروغ کا عزم


امن و استحکام کے لیے علاقائی تعاون کے فروغ کا عزم
امن و استحکام کے لیے علاقائی تعاون کے فروغ کا عزم

سہ فریقی اجلاس کے بعد تینوں صدور نے ایوان صدر میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ مذاکرات کا یہ مفید سلسلہ رواں سال کے اواخر میں کابل میں ہونے والے اگلے سہ فریقی اجلاس میں بھی جاری رہے گا۔

خطے میں امن و استحکام کو فروغ دینے کے لیے پاکستان، ایران اور افغانستان نے تعاون کو وسعت دینے کا عزم کیا ہے۔

اسلام اباد میں جمعہ کو تینوں ہمسایہ ممالک کا تیسرا سہ فریقی سربراہ اجلاس منعقد ہوا جس کی میزبانی صدر آصف علی زرداری نے کی، جب کہ ان کے ایرانی ہم منصب محمود احمدی نژاد اور افغان صدر حامد کرزئی نے اپنے اپنے ملکوں کے وفود کی قیادت کی۔

اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے کے مطابق تینوں ملکوں نے سیاسی، سلامتی، اقتصادی، ثقافتی اور تعلیمی شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے، جب کہ افغانستان میں ترقی و تعمیر نو کی کوششوں میں بھی کردار ادا کرنے کے عزم کو دہرایا گیا۔

مزید برآں ایران اور پاکستان نے افغان قیادت کو امن و مفاہمت کی کوششوں میں اپنی مکمل حمایت کی یقین دہانی بھی کرائی۔

سہ فریقی اجلاس کے بعد تینوں صدور نے ایوان صدر میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ مذاکرات کا یہ مفید سلسلہ رواں سال کے اواخر میں کابل میں ہونے والے اگلے سہ فریقی اجلاس میں بھی جاری رہے گا۔

ایرانی صدر احمدی نژاد نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ خطے کو درپیش مسائل بیرونی طاقتوں کے ’’مسلط‘‘ کردہ ہیں۔

’’ایسے ممالک موجود ہیں جو ہمارے خطے پر غلبہ حاصل کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور اپنی برتری قائم کرنے کے لیے اُنھوں نے ہمارے خطے کو ہدف بنایا ہوا ہے۔‘‘

ان کا اشارہ مغربی ملکوں بالخصوص امریکہ کی طرف تھا۔ ایرانی جوہری پروگرام پر تہران کو امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا ہے اوراس منصوبے سے اسے باز رکھنے کے لیے حال ہی میں ایران پر نئی اقتصادی تعزیرات لگائی گئی ہیں جن کا ہدف تیل کا شعبہ ہے۔

ایرانی صدر نے کہا کہ تینوں ملکوں کو اپنے معاملات میں غیر ملکی مداخلت کی اجازت نہیں دینی چاہیئے۔

’’علاقائی ممالک کے درمیان کوئی بنیادی مسئلہ نہیں ہے، تمام مسائل بیرونی طور پر پیدا کیے جا رہے ہیں۔‘‘

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر زرداری نے اس الزام کی ایک بار پھر سختی سے تردید کی کہ پاکستانی افواج یا ان کے ملک کا کوئی اور ادارہ ’’براہ راست یا بلواسطہ طور پر‘‘ افغانستان میں طالبان جنگجوؤں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔

’’اس امکان کو مسترد کرنا ممکن نہیں کہ ہمارے ملکوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس میں (شورش کی حوصلہ افزائی) میں ملوث ہو سکتے ہیں لیکن یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔‘‘

انھوں نے کہا کہ دہشت گردی نے سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو پہنچایا ہے اور اس لعنت سے چھٹکارا پانے کے لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری افغانستان میں منشیات کی پیداوار کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرے۔

افغان صدر حامد کرزئی نے اسلام آباد میں قیام کے دوران پاکستانی رہنماؤں کے ساتھ افغانستان میں امن کی کوششوں کے بارے میں بات چیت کو مفید اور مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ سہ فریقی اجلاس میں بھی یہ معاملہ زیر بحث رہا۔

XS
SM
MD
LG