رسائی کے لنکس

پاکستان اور ایران کا داعش کے خلاف تعاون پر اتفاق


فائل فوٹو
فائل فوٹو

دفاعی امور کے سینیئر تجزیہ کار اور پاکستانی فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ داعش کے خلاف ایران اور پاکستان میں تعاون پر اتفاق ایک عقلمندانہ پیش رفت ہے۔

پاکستان اور ایران نے داعش سمیت ایسے ہی دیگر شدت پسند گروپوں اور خطے کو درپیش دیگر خطرات سے نمٹنے کے لیے تعاون پر اتفاق کیا ہے۔

تہران میں دونوں ملکوں کی 'باہمی سیاسی مشاورت' کے نویں دور کے اجلاس کے موقع پر پاکستانی سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری اور ایران کے نائب وزیر خارجہ برائے ایشیا بحرالکاہل ابراہیم رحیم پور کے درمیان بات چیت میں اس دوطرفہ تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اسلام آباد میں دفتر خارجہ سے جاری ایک بیان کے مطابق دونوں عہدیداروں نے سلامتی کے مسائل بالخصوص سرحد پر سکیورٹی کی صورتحال پر بھی بات چیت کی۔

ایران کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ تعلقات ہیں لیکن حالیہ برسوں میں اس میں خاصی گرم جوشی دیکھنے میں آئی ہے۔

گزشتہ دو ہفتوں کے دوران کسی بھی اعلیٰ پاکستانی عہدیدار کا یہ دوسرا دورہ ایران تھا۔ اس سے قبل جولائی میں پاکستانی مشیر برائے قومی سلامتی ناصر خان جنجوعہ نے بھی تہران میں عہدیداروں سے ملاقاتیں کی تھیں۔

سنی شدت پسند گروپ داعش نے 2014ء کے وسط میں عراق اور شام کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر کے وہاں قتل و غارت کا بازار گرم کیا اور اپنا دائرہ اثر دیگر ملکوں تک بڑھانے کا اعلان بھی کیا۔

امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اس گروپ کے خلاف عراق اور شام میں کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔

ایران یا پاکستان میں تو اس گروپ کی باقاعدہ موجودگی کی مصدقہ اطلاعات نہیں ہیں لیکن ان دونوں ملکوں کے پڑوسی ملک افغانستان کے مشرقی حصے میں اس نے قدم جمانا شروع کیے اور حالیہ مہینوں میں سکیورٹی فورسز اور طالبان کے ساتھ اس کی جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔

دفاعی امور کے سینیئر تجزیہ کار اور پاکستانی فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ داعش کے خلاف ایران اور پاکستان میں تعاون پر اتفاق ایک عقلمندانہ پیش رفت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ گروپ انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے پیغام کو پھیلا کر لوگوں کو اپنی طرف راغب کر سکتا ہے جس سے نمٹنے کے لیے حفظ ماتقدم کے طور پر اقدام کرنا ہی سب کے مفاد میں ہے۔

"افغانستان میں اس کی موجودگی کی وجہ سے یہ خطرہ ایران کو بھی اور پاکستان کو بھی گو کہ اس خطے میں ان (داعش) کی واضح موجودگی نظر نہیں آتی لیکن خدشات موجود ہیں خاص طور پر ایران کے لیے یا ہماری شیعہ برادری کے لیے خطرہ موجود رہے گا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ عقل مندی کا تقاضہ یہی ہے کہ قبل اس کے کہ اس کی کارروائیاں شروع ہوں ان پر علاقائی سطح پر تعاون اس حد تک کیا جائے کہ ان کے پاؤں یہاں لگنے نہ دیے جائیں۔"

امجد شعیب کہتے ہیں کہ اس ضمن میں دونوں ملک خاص طور پر انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے سے شدت پسندوں کے خلاف خاطر خواہ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG