رسائی کے لنکس

’پاکستان اور ایران کا باہمی فوجی تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق'


باہمی فوجی تعاون کے فروغ کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے، پاکستان اور ایران نے کہا ہے کہ دونوں ملک اپنے باہمی تعلقات بہتر بنانے کے لیے ’’ایک ساتھ کام کرتے رہیں گے‘‘۔

یہ بات پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ایران کی فوج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری اور پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد پاکستان فوج کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہی گئی ہے۔

پاک فوج کے شعبہٴ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے بیان کے مطابق، ایرانی فوج کے سربراہ میجر جنرل باقری نے پیر کو پاکستان فوج کے صدر دفتر میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل باجوہ سے ملاقات کی، جس میں باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سلامتی، پاکستان و ایران کے درمیان دفاعی شعبوں میں تعاون اور بارڈر مینجمنٹ کے امور زیر بحث آئے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’اس موقع پر جنرل باجوہ نے پاکستان اور ایران کے درمیان فوجی تعاون کو مزید وسعت دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان باہمی تعاون خطے کے امن و سلامتی پر مثبت اثرات کا باعث بنے گا‘‘۔

پاکستان اور ایران کی اعلیٰ فوجی قیادت کی طرف سے باہمی فوجی تعاون کو بہتر کرنے کی ضرورت کی بات ایک ایسے وقت سامنے آئی ہےجب بعض شدت پسند گروپ دونوں ملکوں کے لیے مشترکہ خطرہ بن کر سامنے آرہے ہیں۔

اور حال ہی میں پاکستان کے مختلف شہروں میں انتخابی امیدواروں اور ان کے حامیوں پر ہونے والے دہشت گرد حملوں میں 150 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

سلامتی کے امور کے تجزیہ کار اور فوج کے سابق لیفٹنٹ جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے کہ خطے میں درپیش شدت پسندی کے چیلنجوں سے مشترکہ کوششوں کے ذریعے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول، ’’دونوں ممالک کو اپنی سرحد کو محفوظ بنانے کیے لئے مؤثر اقدامات کو جاری رکھنا ہوگا‘‘۔

بقول اُن کے، "اس نقطہٴ نظر سے ایران سے درپیش خطرات سے آگاہ ہیں۔ اور پاکستان کو پہلے ہی ایسے خطرات کا سامنا ہے۔ اس لیے بہتر تعاون کی ضرورت ہے اور دونوں ملک پاک ایران سرحد کو محفوظ کر سکیں۔ اس کے لیے، باہمی تعاون اور اسلام آباد اور تہران کے درمیان مزید فوجی وفود کے دورے ہوں گے اور اس کے ساتھ ساتھ انٹلی جنس معلومات کا تبادلہ، بارڈر مینجیٹ کے کام کی طرف توجہ دی جائے۔"

امجد شعیب نے کہا ’’دہشت گردی کی حالیہ لہر کے تناظر میں سیکورٹی کے خطرات سے متعلق پاکستان اور ایران کو ایک دوسرے کے نقطہ نظر سے بہتر آگہی ہوئی ہے۔"

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے کشیدہ تعلقات کے پیش نظر پاکستان مشرق وسطیٰ کے ان دو حریف ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن جاری رکھنے کا کوشاں رہا ہے۔

تاہم، امجد شعیب کا کہنا ہے کہ پاکستان اور ایران کی جانب سے باہمی تعلقات کو فروغ دینے کی کوششیں پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات پر اثرانداز نہیں ہوں گی۔

بقول اُن کے، ’’اگر سعودی عرب کے کچھ تحفظات ہوں تو یقیناً پاکستان انہیں دور کرنے کی کوشش کرے گا، کیونکہ یہ تعاون سعودی عرب کے خلاف نہیں ہے۔ اسلام آباد اور تہران کا تعاون خطے کے معاملات سے ہے، تاکہ یہاں امن قائم کیا جائے‘‘۔

اُنھوں نے مزید کیا کہ ’’ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کا باعث بننے والے معاملات کا ہمارے خطے سے تعلق نہیں ہے۔ وہ یمن یا شام سے متعلق ہو سکتے ہیں، جب کہ پاکستان ان معاملات پر کبھی فریق نہیں رہا۔"

روایتی طور پر پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ ہر شعبے میں قریبی تعلقات چلے آ رہے ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں کے دوران پاکستان ایران کے ساتھ ہر شعبے میں اپنے تعلقات بہتر کرنے کے لیے کوشاں رہا ہے۔ حالیہ سالوں میں پاکستان اور ایران کے درمیان ہونے والے رابطے بھی انہی کوششوں کی ایک کڑی ہیں۔

XS
SM
MD
LG