رسائی کے لنکس

اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کا حصہ ہیں: پاکستان


وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ
وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ

وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اس اتحاد کے بارے میں مزید تفصیلات حاصل کی جا رہی ہیں اور صرف اس چیز کا تعین کیا جانا باقی ہے کہ اس فوجی اتحاد کی مختلف سرگرمیوں میں پاکستان کس حد تک حصہ لے سکتا ہے۔

پاکستان نے کہا ہے کہ وہ سعودی عرب کی طرف سے اعلان کردہ 34 اسلامی ممالک پر مشتمل فوجی اتحاد کا حصہ ہے۔

جمعرات کو ہفتہ وار نیوز کانفرنس میں وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے کہا کہ ’’ہاں ہم اس اتحاد کا حصہ ہیں، ہم نے فیصلہ کیا ہے اور ہم نے اس اتحاد کو خوش آمدید کہا ہے‘‘

لیکن اُن کا کہنا تھا کہ اس بارے میں مزید تفصیلات حاصل کی جا رہی ہیں اور صرف اس چیز کا تعین کیا جانا باقی ہے کہ اس فوجی اتحاد کی مختلف سرگرمیوں میں پاکستان کس حد تک حصہ لے سکتا ہے۔

تاہم وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس سوال کی وضاحت نہیں کی کہ سعودی عرب کی طرف سے فوجی اتحاد کے اعلان سے قبل اس سلسلے میں پاکستان سے کس سطح پر رابطہ یا مشاورت کی گئی۔

رواں ہفتے سعودی عرب کی طرف سے 34 اسلامی ممالک پر مشتمل اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا، جس میں پاکستان کا نام بھی شامل تھا۔

قاضی خلیل اللہ کا کہنا تھا کہ کیوں کہ یہ فوجی اتحاد دہشت گردی کے خلاف ہے اس لیے پاکستان کی طرف سے اس کے قیام کو خوش آئند قرار دیا گیا۔

’’پاکستان کی یہ حکمت عملی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف چاہے علاقائی سطح پر کوئی کوشش ہو رہی ہو یا عالمی سطح پر، ہم اُس کی حمایت کرتے ہیں۔ کیوں کہ دہشت گردی ایک ملک کا مسئلہ نہیں ہے، ایک خطے کا مسئلہ نہیں ہے اب یہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔‘‘

واضح رہے کہ سعودی عرب کی طرف سے اعلان کردہ فوجی اتحاد میں تین اسلامی ممالک شام، عراق اور ایران اس میں شامل نہیں ہیں۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان سے جب اسلامی ممالک کے اتحاد میں تین اہم ملکوں کی عدم شمولیت کے بارے میں پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’کوئی ملک اگر اس میں شامل نہیں ہے تو میں اُس پر کوئی بیان نہیں دوں گا، یہ اُن ممالک پر منحصر ہے کہ وہ اس کو کس طریقے سے دیکھتے ہیں۔‘‘

تجزیہ کار لفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بہتر ہو گا کہ پاکستان اس معاملے پر پارلیمان کو اعتماد میں لے۔

واضح رہے کہ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی کے آغاز کے بعد بھی سعودی حکومت کی طرف سے پاکستان سے فوجیں بھیجنے کا کہا گیا تھا۔

اس معاملے پر پاکستانی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں ہونے والی طویل بحث کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان یمن کے تنازع کے سفارتی حل کا حامی ہے اور اس ضمن میں کردار بھی ادا کرنے کو تیار ہے لیکن اس جنگ میں براہ راست شامل ہونا اس کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔

تاہم اسلام آباد نے سعودی عرب کو یقین دلایا تھا کہ سعودی عرب کی سلامتی اور خودمختاری کو درپیش کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستان بھرپور تعاون کرے گا۔

XS
SM
MD
LG