رسائی کے لنکس

اسلام آباد میں 'خواتین سے جنسی زیادتی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اگرچہ اسلام آباد میں 2015ء کے مقابلے میں گزشتہ سال امن و امان کی مجموعی صورت حال میں قدرے بہتری آئی ہے تاہم خواتین سے جنسی زیادتی کے واقعات میں 160 فیصد اضافہ ہوا۔

پاکستان بھر میں خواتین پر تشدد اور جنسی زیادتی کے واقعات اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں جس پر خواتین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں تشویش کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔

تاہم ملک کے وفاقی دارالحکومت میں گزشتہ سال خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کے واقعات میں غیر معمولی اضافے کو نہایت تشویش ناک قرار دیا جا رہا ہے۔

اگرچہ اسلام آباد میں 2015ء کے مقابلے میں گزشتہ سال امن و امان کی مجموعی صورت حال میں قدرے بہتری آئی ہے تاہم خواتین سے جنسی زیادتی کے واقعات میں 160 فیصد اضافہ ہوا۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں اسلام آباد میں امن و امان کی صورت حال سے متعلق ایک سوال کے جواب میں تحریری طور پر فراہم کئے گئے اعدادوشمار میں بتایا کہ گزشتہ سال خواتین سے جنسی زیادتی کے 39 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ 2015ء میں ایسے واقعات کی تعداد صرف 15 تھی۔

ایک دوسرے سوال کے جواب میں نثار علی نے بتایا کہ 2016ء میں خواتین کے خلاف 119 واقعات پولیس کو رپورٹ ہوئے۔

خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکومت کی طرف سے خواتین پر تشدد اور جنسی زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے لئے حالیہ سالوں میں قانون سازی سمیت دیگر انتظامی اقدامات کئے گئے تاہم ایسے واقعات میں اضافہ نہایت تشویش کی بات ہے۔

آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے کمیشن برائے حقوق نسواں کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال خواتین پر تشدد کے سات ہزار واقعات ہوئے جن میں جنسی زیادتی کے واقعات کی تعداد لگ بھگ دو ہزار کے قریب تھی۔

کمیشن کی چیئر پرسن فوزیہ وقار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کے خلاف ایسے واقعات کی کئی وجوہات ہیں۔

" ایک بڑی وجہ معاشرے میں جرائم میں اضافہ ہے اس لئے خواتین کے خلاف بھی جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے ہمارا پدری سماجی نظام ہے جس کی وجہ سے جو کمزور ہے وہ تشدد کا آسان ہدف ہوتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں انصاف کے اداروں اور پولیس میں اصلاحات کرنی ضروری ہے تاکہ مجرم سزا سے نا بچ سکیں۔"

انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ خواتین سے متعلق منفی رویوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔

"یہ چاہیئے میڈیا کے ذریعے ہو یا تعلیمی نظام میں اس کے بارے میں معلومات فراہم کرنا یا تعلیمی اداروں میں کیونکہ وہ لڑکوں اور لڑکیوں کی سوچ کی تشکیل ہوتی ہے۔ یہ کام اگر پائیدار اور منظم بنیادوں پر ہوں گے تو تب فرق پڑے گا۔ "

وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بتایا کہ اسلام آباد میں جرائم کی روک تھام کے لئے کئے گئے موثر اقدامات میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر ہونے والی کارروائیاں سمیت رینجرز اور پولیس کی مشترکہ گشت بھی شامل ہیں۔"

فوزیہ وقار نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اب ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے بھی ہر سطح پر اقدامات کر رہے ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ ان کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ان واقعات میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

XS
SM
MD
LG