رسائی کے لنکس

سیلابی ریلے سے جیکب آباد کو خطرہ، شہر خالی


سیلابی ریلے سے جیکب آباد کو خطرہ، شہر خالی
سیلابی ریلے سے جیکب آباد کو خطرہ، شہر خالی

دریائے سندھ کے توڑی بند میں پڑنے والے شگاف سے نکلنے والا سیلابی ریلہ جیکب آباد شہر کے اطراف میں پہنچنے کے بعد شہر کو آبادی سے خالی کرا لیا گیا ہے، جبکہ سیلاب سے ضلع کے اب تک ایک ہزار سے زائد دیہات زیرِآب آچکے ہیں۔

ضلع میں پاک فوج کی جانب سے ریلیف اینڈ ریسکیوآپریشن کے انچارج کرنل شہزادہ خرم نے ٹیلی فون پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سیلابی ریلہ جیکب آباد کے نواحی علاقوں میں داخل ہوجانے کے بعد شہر کی اسی فیصد آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جاچکا ہے جبکہ پیچھے رہ جانے والے افراد کی نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے جو آج رات تک مکمل کرلیا جائے گا۔

کرنل خرم کا کہنا تھا کہ سیلابی ریلہ کا رخ موڑنے کی کوششیں جاری ہیں تکہ شہر کو بچایا جاسکے، تاہم ان کے مطابق ریلہ کا حجم بہت زیادہ ہے اور وہ بیس کلومیٹر کے قطر میں آگے بڑھ رہا ہے جس کے باعث اسکا بہائو روکنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

کرنل خرم کے مطابق اگر انتظامیہ سیلابی ریلے کو روکنے یا اس کا رخ موڑنے میں ناکام ہوگئی تو جیکب آباد کے بعد سیلابی پانی بالائی سندھ کے دیگر بڑے شہروں قنبر اور شہدادکوٹ میں داخل ہونے کے امکانات ہیں جو کہ سیلابی ریلے کے قدرتی بہائو کے رخ پر واقع ہیں۔ اس صورت میں مزید آبادی کے انخلاء اور املاک کے نقصانات سے صورتحال مزید گھمبیر ہوسکتی ہے۔

ڈی سی او ضلع جیکب آباد کاظم جتوئی کا کہنا ہے کہ سیلابی ریلہ تیزی سے نورواہ کینال میں داخل ہورہا ہے جسکی وجہ سے کینال پر پانی کا شدید دبائو ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کینال آئندہ چند گھنٹوں تک ہی پانی کا دبائو برداشت کر پائے گی۔ ڈی سی او کا کہنا تھا کہ اگر سیلابی پانی جیکب آباد میں داخل ہوا تو وہ سب سے پہلے شہباز ایئربیس کو نقصان پہنچائے گا۔ واضح رہے کہ شہباز ایئر بیس ماضی میں کئی سال تک امریکی میرینز کے زیرِ استعمال رہا ہے جہاں سےامریکہ کی قیادت میں افغانستان میں جاری طالبان کے خلاف آپریشن کو لاجسٹک اور آپریشنل سپورٹ فراہم کی جاتی تھی۔

جیکب آباد کی طرف بڑھنے والے سیلابی ریلے سے جمعرات کے روز اس کے راستے میں موجود ٹھل شہر زیرآب آگیا تھا جہاں سے نقل مکانی کرنے والی آبادی جیکب آباد میں قائم کیے گئے ریلیف کیمپوں میں مقیم تھی۔ تاہم جمعہ کے روز ان متاثرہ افراد کو دو دنوں میں دوسری بار نقل مکانی کی اذیت سے گذرنا پڑا۔

کرنل خرم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اب تک سیلابی ریلے سے ضلع بھر میں 1000 سے زائد چھوٹے بڑے دیہات مکمل طور پر زیرِ آب آچکے ہیں، جبکہ کئی دیہات میں اب بھی آٹھ فٹ اونچا پانی کھڑا ہے۔ ان کے اندازے کے مطابق سیلاب سے ضلع کی ساڑھے سات لاکھ آبادی متاثر ہوئی ہے۔

خرم کا دعوی تھا کہ متاثرہ دیہات کی سو فیصد آبادی کو پاک فوج نے پاکستان نیوی کی مدد سے محفوظ مقامات پر منتقل کیا ہے جسے اس ریسکیو آپریشن میں دو ہیلی کاپٹرز اور کئی بڑی موٹر بوٹس کی مدد حاصل تھی۔ ان کے مطابق فوجی ٹیمیں روزانہ سیلابی پانی میں گھرے پانچ سے سات سو افراد کو محفوظ مقامات اور ریلیف کیمپس میں منتقل کررہی ہیں، جبکہ اس ریسکیو آپریشن میں ترجیح عورتوں اور بچوں کو دی جارہی ہے جن کی تعداد ان کے مطابق بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ضلع میں فوج اور سول انتظامیہ کی جانب سے 20 بڑے ریلیف کیمپس قائم ہیں جہاں اب تک کئی ہزار افراد رجسٹر ہوچکے ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ ضلع میں اتنی بڑی تباہی کو روکنے کے لیے بروقت اقدامات کیوں نہیں اٹھائے گئے، کرنل شہزادہ خرم کا کہنا تھا کہ ماضی میں سیلابی ریلہ نے جیکب آباد ضلع کو کبھی متاثر نہیں کیا اور اس بار بھی اگر دریائے سندھ کے توڑی بند میں شگاف نہ پڑتا تو ضلع کا بیشتر حصہ سیلاب کی تباہی سے محفوظ رہنے کا امکان تھا۔

XS
SM
MD
LG