رسائی کے لنکس

بلوچستان: صحافیوں کے قتل کی تحقیقات کے لیے ’عدالتی ٹربیونلز‘ کا قیام


فائل فوٹو
فائل فوٹو

صوبائی سیکرٹری داخلہ اکبر درانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ 2011ء سے اب تک صوبے میں 14 صحافی ہلاک ہوئے جب کہ صحافتی تنظیموں کی طرف سے حکومت کو فراہم کی گئی فہرست میں 2008ء سے اب تک صوبے میں مارے جانے والے 24 صحافیوں کا تذکرہ ہے۔

پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں حالیہ برسوں میں پرتشدد حملوں میں ہلاک ہونے والے صحافیوں سے متعلق مقدمات کی تحقیقات کے لیے عدالتی ٹربیونلز قائم کیے گئے ہیں جو اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کریں گے۔

صوبائی سیکرٹری داخلہ اکبر درانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ 2011ء سے اب تک صوبے میں 14 صحافی ہلاک ہوئے جب کہ صحافتی تنظیموں کی طرف سے حکومت کو فراہم کی گئی فہرست میں 2008ء سے اب تک صوبے میں مارے جانے والے 24 صحافیوں کا تذکرہ ہے۔

ان ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے ٹربیونلز قائم کرنے کے فیصلے کی وجوہات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا۔

"تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ جو ہائی کورٹ کے جج تھے ان کی طرف سے تجویز آئی کہ دور دراز علاقوں کے سیشن جج اس کی تحقیقات کر سکتے ہیں تو وہ 14 صحافی جن کی ہمارے پاس فہرست تھی ہم نے وہاں سیشن جج صاحبان (سے کہا ہے) وہ اپنی رپورٹ پیش کریں گے۔"

ان کا کہنا تھا کہ اب تک تین صحافیوں کی ہلاکت سے متعلق رپورٹ انھیں موصول ہو چکی ہے جسے حکومت کو پیش کر دیا گیا ہے۔

2011ء سے 2013ء کے دوران مکران اور خضدار میں چھ صحافیوں کو ہدف بنا کر ہلاک کیا گیا۔

تین اکتوبر 2013ء کو کوئٹہ کی علمدار روڈ پر ایک خودکش بم دھماکے میں صحافتی برادری کے تین ارکان مارے گئے جب کہ 2012ء میں ضلع پنجگور اور بسیمہ کے علاقوں میں دو صحافیوں کو قتل کیا گیا۔

ان ہی برسوں میں لسبیلہ اور قلات میں بھی دو صحافیوں کو ہدف بنا کر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جو صحافیوں کے لیے مشکل ترین تصور کیے جاتے ہیں۔

یہ ٹریبونلز ان صحافیوں کی ہلاکت کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے علاوہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سفارشات مرتب کریں گے اور اس بارے میں اپنی رپورٹ سفارشات کے ساتھ مکمل کر کے 30 دن کے اندر متعلقہ حکام کو پیش کریں گے۔

XS
SM
MD
LG