رسائی کے لنکس

تعزیرات میں ترمیم سے ہزاروں ملزمان مستفید ہوں گے: ماہرین


تعزیرات میں ترمیم سے ہزاروں ملزمان مستفید ہوں گے: ماہرین
تعزیرات میں ترمیم سے ہزاروں ملزمان مستفید ہوں گے: ماہرین

کوڈ آف کریمنل پروسیجر ترمیمی قانون کی شائع شدہ تفصیلات کے مطابق ایسا ملزم جس کے جرم کی سزا موت نا ہواور ایک سال تک زیر حراست رہنے کے بعد بھی اس کے مقدمے کا فیصلہ نا ہوا ہو وہ قانونی طور پر ضمانت حاصل کر سکتا ہے۔ قانون کے تحت وہ قیدی رہا نہیں ہو سکیں گے جنھیں موت یا عمر قید کی سزا دی جا چکی ہو، وہ جو دہشت گردی میں ملوث ہوں یا پھر وہ قیدی جنھیں عدالت خطرناک مجرم تصور کرتے ہوئے ضمانت پر رہا کرنا مناسب نا سمجھے۔

قانونی ماہرین نے ”کوڈ آف کریمنل پروسیجر ترمیمی بل 2011ء“ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اصلاح شدہ قانون سے اُن ہزاروں قیدیوں کو ریلیف حاصل ہو گا جو عدالت کی طرف سے مقدمات نمٹانے میں غیر معمولی تعطل کے باعث سال ہا سال تک جیلوں میں قید رہتے ہیں۔ جب کہ بعض قانون دانوں کی رائے میں اس کے باوجود بھی مقدمات میں التواء کا مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔

پارلیمان کے دونوں ایوانوں کی منظوری کے بعد صدر آصف علی زرداری نے 18 اپریل کو ترمیمی قانون پر دستخط کیے تھے جس کی بحال کردہ شقوں کے مطابق ایسے ملزمان اور مجرمان کی ضمانت ہو سکے گی جن کے مقدمات یا اپیلوں کا فیصلہ ایک مقررہ مدت کے اندر نہیں کیا جاتا۔

قیدیوں کے حقوق اور امداد کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ” سوسائٹی فار ہیومن رائٹس اینڈ پرزنرز ایڈ (شارپ)“ کے مطابق اس وقت پاکستان کی جیلوں میں 80 سے 90 فیصد قیدی ایسے ہیں جن کے مقدمات زیر سماعت ہیں اور ملک کے عدالتی نظام میں روایتی تعطل کے رجحان کی وجہ سے وہ سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

تنظیم کے سربراہ اور قانونی ماہر لیاقت بنوری نے وائس آف امریکہ سے گفتگومیں کہا کہ ترمیمی قانون کے بعد جب بہت سے قیدی رہا ہوں گے تو جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی کا مسئلہ بھی حل ہو سکے گا۔

تعزیرات میں ترمیم سے ہزاروں ملزمان مستفید ہوں گے: ماہرین
تعزیرات میں ترمیم سے ہزاروں ملزمان مستفید ہوں گے: ماہرین

تنظیم کے مطابق ملک کی جیلوں میں زیر حراست قیدیوں کی تعداد گنجائش سے دو گنا ہے جس کی وجہ سے قیدیوں کو رہائش میں شدید مشکلات درپیش ہیں اور ناقدین کے مطابق یہ اپنے بہت سے حقوق سے محروم ہیں۔

حقوقِ انسانی کی عمل بردار غیر سرکاری تنظیم ”ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان“ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک کی 91 جیلوں میں تقریباً ساڑھے 42 قیدی رکھنے کی گنجائش ہے لیکن اس کے برعکس ان جیلوں میں ساڑھے 75 ہزار سے زائد قیدی زیر حراست ہیں۔ تنظیم کے مطابق 55 جیلوں میں قیدیوں کی تعداد منظور شدہ گنجائش سے زیادہ ہے۔

ریٹائرڈ جسٹس اور حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کی ممبر قومی اسمبلی فخرالنسا نے کہا کہ ایک مخصوص مدت تک مقدمے یا اپیل کا فیصلہ نا ہونے کی صورت میں ضمانت کی رعایت کا قانون اگرچے پہلے بھی موجود تھا لیکن موثر نفاذ نا ہونے اور قیدیوں میں تعلیم اور آگہی کی کمی کی وجہ سے انہیں خاطر خواہ ریلیف حاصل نہیں ہورہا تھا۔

اصلاح کردہ قانون 2011ء کا مقصد ان کے بقول اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کسی بھی فرد کو قانون سے ماورا سزا یا تکلیف نا ہو۔ ”ایسے قیدی جن کا کوئی پرسان حال نا ہو اُنھیں بے یار و مدد گار تو نہیں چھوڑا جا سکتا۔“

کوڈ آف کریمنل پروسیجر ترمیمی قانون کی شائع شدہ تفصیلات کے مطابق ایسا ملزم جس کے جرم کی سزا موت نا ہواور ایک سال تک زیر حراست رہنے کے بعد بھی اس کے مقدمے کا فیصلہ نا ہوا ہو وہ قانونی طور پر ضمانت حاصل کر سکتا ہے۔

جبکہ وہ ملزم جو جرم ثابت ہونے پر سزا موت کا مستحق ہو ضمانت تب حاصل کر سکتا ہے اگر اس کے مقدمے کو دو سال کے عرصے میں بھی نا نمٹایا گیا ہو۔

خواتین قیدیوں کے لئے اس ضمانت کی رعایت سے فائدہ اٹھانے کے لیے زیر حراست رہنے کی مدت مردوں کی نسبت آدھی ہے۔

قانون کے تحت وہ قیدی رہا نہیں ہو سکیں گے جنھیں موت یا عمر قید کی سزا دی جا چکی ہو، وہ جو دہشت گردی میں ملوث ہوں یا پھر وہ قیدی جنھیں عدالت خطرناک مجرم تصور کرتے ہوئے ضمانت پر رہا کرنا مناسب نا سمجھے۔

ریٹائرڈ جسٹس ناصر اسلم زاہد کی رائے میں اس قانون کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں کیونکہ اس کے تحت اگر ایک طرف ملزم کو ریلیف حاصل ہوگا تو وہیں اس بات کا خطرہ بھی موجود ہوگا کہ ضمانت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ دوبارہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہو جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ انصاف کی فراہمی کے نظام میں کسی انقلابی تبدیلی کی توقع نہیں کی جانی چاہیئے کیونکہ ایسا تب ہی ممکن ہے جب عدالتی نظام میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ ججوں کی کمی کو پورا کیا جائے اور استغاثہ اور تفتیش کے نظام کو موثر بنایا جائے۔

سینئر وکیل انیس جیلانی بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ”کوڈ آف کریمنل پروسیجر ترمیمی بل 2011ء“ سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ اگر ضمانت حاصل ہو بھی جائے تو قیدیوں کی ایک بڑی تعداد غریب ہونے کی وجہ سے ’شورٹی بانڈ‘ یا رہائی کے لئے واجب الادا رقم ادا کرنے کے قابل نہیں ہوگی۔

XS
SM
MD
LG