رسائی کے لنکس

’غدار‘ ڈاکٹر کو سزا کے عدالتی فیصلے کا احترام سب پر لازم


شکیل آفریدی
شکیل آفریدی

شکیل آفریدی نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا پتہ لگانے میں امریکی سی آئی اے کی مدد کرتے ہوئے وہاں پر پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے اور ہیپٹائٹس کے حفاظتی ٹیکے لگانے کی ایک جعلی مہم چلائی تھی جو پاکستانی حکام کے بقول نہ صرف ان کے اپنے شعبے سے بد دیانتی تھی بلکہ غیر ملکی ریاست کے لیے خدمات سر انجام دے کر انھوں نے ملک سے غداری بھی کی۔

امریکہ اور پاکستان کے تعلقات مسلسل ایک سال سے کشیدگی کا شکار ہیں اور اُسامہ بن لادن کی تلاش میں سی آئی اے کی معاونٹ کرنے والے پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کو غداری کے جرم میں 33 سال قید کی سزا کا عدالتی فیصلہ اس سفارتی تناؤ میں اضافے کا باعث بنا ہے۔

لیکن بظاہر دونوں حکومتیں اپنے اپنے موقف پر سختی سے ڈٹی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے مبصرین کو خدشہ ہے کہ حالات ایک ایسی سمت میں جا سکتے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوگی۔

ایک روز قبل واشنگٹن میں وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے شکیل آفریدی کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک اور انھیں سنائی جانے والی سخت سزا پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے غیر منصفانہ اور بے جا قراردیا تھا۔

امریکی سینیٹ کی ایک کمیٹی نے بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کی امداد میں 33 ملین یا تین کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی کمی کے بل کی متفقہ منظوری دی تھی۔

وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک
وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک

لیکن ان اقدامات سے قطع نظر وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے جمعہ کو پاکستان کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ شکیل آفریدی کو عدالت نے ملکی قوانین کے مطابق سزا سنائی ہے۔

’’ڈاکٹر آفریدی ایک غدار ہے جسے عدالت کے سامنے پیش کیا گیا اور عدالت نے مروجہ قوانین کے تحت اسے سزا سنائی ہے اس لیے ہم سب کو عدالت کے فیصلے کا احترام ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔‘‘

لیکن امریکی وزیرِ خارجہ نے جمعرات کو واشنگٹن میں دیے گئے بیان میں پاکستان کے اس موقف سے اختلاف کیا تھا کہ شکیل آفریدی نے اپنے ملک سے غداری کی ہے۔

’’امریکہ کو یقین ہے کہ ڈاکٹر آفریدی کی گرفتاری بے بنیاد ہے بلکہ اس کی مدد سے دنیا کو مطلوب ترین دہشت گرد کا خاتمہ ممکن ہوا جو پاکستان اور امریکہ دونوں کے مفاد میں تھا اس لیے اس کا فعل کسی طور پاکستان سے غداری کے زمرے میں نہیں آتا۔‘‘

شکیل آفریدی نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا پتہ لگانے میں امریکی سی آئی اے کی مدد کرتے ہوئے وہاں پر پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے اور ہیپٹائٹس کے حفاظتی ٹیکے لگانے کی ایک جعلی مہم چلائی تھی جو پاکستانی حکام کے بقول نہ صرف ان کے اپنے شعبے سے بد دیانتی تھی بلکہ غیر ملکی ریاست کے لیے خدمات سر انجام دے کر انھوں نے ملک سے غداری بھی کی۔

قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کے ساتھ تعلق کی بنیاد پر ڈاکٹر آفریدی پر مقامی ایف سی آر کے تحت معاون پولیٹیکل ایجنٹ کی عدالت میں غداری کا مقدمہ چلایا گیا اور تین ماہ کی سماعت کے بعد بدھ کو انھیں 33 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ اُنھیں پشاور کی مرکزی جیل میں قید رکھا گیا ہے۔

شکیل آفریدی سزا کے خلاف پولیٹیکل ایجنٹ کے سامنے اپیل دائر کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

ایف سی آر کے نظام عدل میں ملزم کو عدالت میں اپنا دفاع خود کرنا ہوتا ہے اور اسے وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت نہیں۔

ملک کی صف اول کی انسانی حقوق کی ایک تنظیم، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، نے جمعہ کو جاری کیے گئے اپنے بیان میں ڈاکٹر آفریدی کو منصفانہ قانونی کارروائی کے حق سے محروم کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اُن پر لگائے گئے الزامات سے قطع نظر مقدمے کے دوران وہ تمام حقوق دینے کا مطالبہ کیا ہے جس کا ملزم حقدار ہوتا ہے۔

’’ہر کوئی ملک کی سلامتی کے بارے میں فکر مند ہوسکتا ہے مگر اس امر کو کسی شخص کو قانون کی حکمرانی سے محروم کرنے کا جواز نہیں بنایا جاسکتا۔‘‘

تنظیم نے کہا ہے کہ ڈاکٹر آفریدی کا مقدمہ کئی وجوہات کی بنا پر منصفانہ کارروائی کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا جن میں فطری انصاف کے بنیادی اصول کو نظر انداز کرنا بھی شامل ہے۔ مزید برآں بیان میں کہا گیا ہے کہ مبینہ جرم ایبٹ آباد میں سر زد ہوا تھا اس لیے قبائلی عدالت کو مقدمے کی منتقلی کا بھی کوئی جواز نہیں تھا۔

’’اس طرح کے سلوک سے ایسے شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں کہ قبائلی عدالت میں اس کے خلاف مقدمہ چلانے کا واحد مقصد اسے پاکستان کے آئین میں درج شدہ حقوق سے محروم کرنا تھا۔‘‘

XS
SM
MD
LG