رسائی کے لنکس

پاکستان میں قیدی بچوں کی حالت زار


پاکستان میں قیدی بچوں کی حالت زار
پاکستان میں قیدی بچوں کی حالت زار

سماجی بہبود کی وفاقی وزیر ثمینہ خالد گھرکی نے سول سوسائٹی اور قانونی ماہرین کی اس تنقید کو مسترد کیا ہے کہ 2000ء میں جاری کیے گئے جوونائل جسٹس سسٹم آرڈیننس کا مئوثر نفاذ نہ ہونے سے ملک بھر کی جیلوں میں قید سینکڑوں بچوں کو ذہنی،جسمانی اور جنسی استحصال کا سامنا ہے۔

ثمینہ خالد گھرکی (فائل فوٹو)
ثمینہ خالد گھرکی (فائل فوٹو)

وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ حکومت قیدیوں سمیت تمام غریب اور بے سہارا بچوں کو قانونی، مالی اور ہر طرح کی دوسری امداد فراہم کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ مذکورہ آرڈیننس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے قانون سازی کیے جانے کے بعد اب یہ صوبائی حکومتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی جیلوں میں قید بچوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سپارک کے قومی مینیجر عبداللہ کھوسو کا کہنا ہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں نافذ کیے گئے مذکورہ آرڈیننس کے تحت متعلقہ ادارے اس بات کے پابند تھے کہ 18سال سے کم عمر قیدیوں کے لیے خصوصی جوونائل عدالتیں یعنی قیدی بچوں کی عدالتیں قائم کی جائیں، ان کے مقدمات چار ماہ کے اندر نمٹائے جائیں، انھیں مفت قانونی امداد دی جائے اور کسی بھی نوجوان قیدی کو سزائے موت نہ دی جائے تاہم تنظیم کا الزام ہے کہ اس آرڈیننس پر مئوثر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے غریب بچوں کی انصاف تک رسائی دشوار ہے کیونکہ ابھی تک ان کے لیے کوئی ایک بھی علیحدہ عدالت قائم نہیں کی گئی اور کم عمر قیدیوں کو بدستور جیلوں میں عادی مجرموں کے ساتھ رکھا جارہا ہے۔

تنظیم کو تشویش ہے کہ عادی مجرموں کی صحبت میں رہ کربچے مجرمانہ ذہنیت اختیار کرکے غلط راہیں اپنا سکتے ہیں۔ سپارک کے اعدادوشمار کے مطابق اس آرڈیننس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ جیل میں قید بچوں کی تعداد جو 2000ء میں پانچ ہزار کے قریب تھی اب کم ہوکر تقریباً 1300رہ گئی ہے ۔

تاہم وفاقی وزیر ثمینہ خالد کا کہنا ہے کہ 1300بچوں کے قیدی ہونے کے اعدادوشمار درست نہیں ہیں کیونکہ ان کے مطابق یہ تعداد اس سے کم ہے ۔انھوں نے کہا ”میں نے خود جیلوں میں بچوں سے ملاقات کی ہے اور ہم جیلوں میں بچوں کو نہ صرف تعلیم کی سہولت فراہم کررہے ہیں بلکہ ملک کے 13اضلاع میں یتیم بچوں کے لیے یتیم خانے بھی قائم کیے گئے ہیں تاکہ انھیں جیلوں سے یہاں منتقل کیا جاسکے“۔

XS
SM
MD
LG