رسائی کے لنکس

خیبر ایجنسی سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد تین لاکھ 60 ہزار


Haitian students walk as they head to a security zone during an Earthquake and Tsunami Emergency drill in the city of Cap-Haitien.  An estimated 4,500 people participated in the activities during the exercise.
Haitian students walk as they head to a security zone during an Earthquake and Tsunami Emergency drill in the city of Cap-Haitien.  An estimated 4,500 people participated in the activities during the exercise.

حکام کے بقول ان لوگوں کی اکثریت سرکاری طور پر قائم کیے گئے کیمپوں کی بجائے اپنے رشتے داروں کے پاس یا کرائے پر جگہ حاصل کر کے رہ رہی ہے۔

افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں گزشتہ ماہ شروع ہونے والے فوجی آپریشن کے بعد وہاں سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد تین لاکھ 60 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔

15 جون کو قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف شروع کیے گئے فوجی آپریشن کی وجہ سے پہلے ہی یہاں سے تقریباً چھ لاکھ لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔

عارضی طور پر منتقل ہونے والے یہ لوگ ملحقہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں مقیم ہیں۔

قبائلی علاقوں میں آفات سے نمٹنے کے ادارے "ایف ڈی ایم اے" کے مطابق خیبر ایجنسی سے اب تک تین لاکھ 64 ہزار 960 افراد نے نقل مکانی کی ہے جن میں دو لاکھ 13 ہزار سے زائد بچے ہیں۔

حکام کے بقول ان لوگوں کی اکثریت سرکاری طور پر قائم کیے گئے کیمپوں کی بجائے اپنے رشتے داروں کے پاس یا کرائے پر جگہ حاصل کر کے رہ رہی ہے۔

نقل مکانی کرنے والوں کے معاملے پر پہلے صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے مابین تلخی چلی آرہی تھی لیکن اس نے ایک نیا رخ رواں ہفتے اس وقت اختیار کیا جب بنوں میں نقل مکانی کرنے والوں میں راشن کی تقسیم کے دوران بدنظمی دیکھی گئی اور ان لوگوں کی پولیس سے جھڑپ ہوئی۔

پولیس نے متعدد قبائلیوں کو حراست میں لیا تھا جنہیں ہفتہ کو رہا کر دیا گیا۔

صوبے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے جو گزشتہ تین ماہ سے مرکزی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔

اس جماعت کے سربراہ عمران خان نے ہفتہ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی علاقوں سے بے دخل ہونے والوں کی ذمہ داری مرکزی حکومت کے کیونکہ یہ علاقے وفاق کے زیر انتظام ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت اس ضمن میں صوبائی حکومت سے تعاون نہیں کر رہی۔

"فیڈرل گورنمنٹ کے پاس سارا پیسہ آ رہا ہے۔ ذمہ داری ساری آگئی ہے خیبر پختونخواہ حکومت کے اوپر۔۔۔ پولیس ہی نہیں ہے ہمارے پاس جتنے وہاں آئی ڈی پیز آگئے ہیں اور جتنا پیسہ جو آنا چاہیے تھا صوبائی حکومت کے پاس وہ سارا مرکزی حکومت میں جارہا ہے تو فیڈرل حکومت کیسے وہاں سے بیٹھ کر یہ (معاملہ) سنبھال رہی ہے۔"

لیکن حکمران مسلم لیگ ن کی رکن قومی اسمبلی ماروی میمن کہتی ہیں کہ صوبائی حکومت نقل مکانی کرنے والوں کے لیے انتظامات منظم کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔

" آپ تشدد کرتے ہیں آئی ڈی پیز پر جنہوں نے گھر چھوڑے ہیں آپ کے دفاع کی خاطر، آپ سے ریلیف اور راشن تو دیا نہیں جاتا۔ سارا ریلیف اور راشن سب سے زیادہ فیڈرل گورنمنٹ دے رہی ہے بلکہ پنجاب گورنمنٹ نے خیبر پختونخواہ حکومت سے زیادہ دیا ہے یہاں اور اوپر سے اس کی تقسیم آپ سے سنبھالی نہیں جاتی۔"

نقل مکانی کرکے آنے والوں کی طرف سے آئے روز شکایات بھی منظر عام پر آتی رہتی ہیں کہ انھیں مناسب خوراک اور دیگر اشیائے ضروری فراہم نہیں کی جارہیں اور وہ اپنے علاقوں کو واپس جانے کے لیے بیتاب ہیں۔

تاہم حکام کا کہنا ہے کہ فوجی کارروائی کے بعد ان علاقوں میں بنیادی ڈھانچے اور مناسب انتظامات کے بعد ہی ان لوگوں کی واپسی شروع کی جائے گی۔

XS
SM
MD
LG