رسائی کے لنکس

خیبرپختونخواہ میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں اضافہ باعث تشویش


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اکثر واقعات میں ان خواتین کو قتل کے بعد ان کی لاش ویرانے میں پھینک دی جاتی رہی جنہیں بعد ازاں لاوارث قرار دے کر دفن کر دیا گیا۔

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں حالیہ ہفتوں کے دوران مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے جس پر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

حقوق نسواں کی تنظیموں نے دعویٰ کیا ہے کہ رواں سال اب تک صوبے کے مختلف حصوں میں 20 سے زائد خواتین کو غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے اور متعدد واقعات میں حسب روایت ملزمان کو مقامی جرگوں کے ذریعے قانون کی گرفت میں آنے سے بچایا بھی گیا جو کہ اپنی جگہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

اکثر واقعات میں ان خواتین کو قتل کے بعد ان کی لاش ویرانے میں پھینک دی جاتی رہی جنہیں بعد ازاں لاوارث قرار دے کر دفن کر دیا گیا۔

رواں ماہ ہی کوہاٹ سے تعلق رکھنے والی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون حنا شاہنواز کو بظاہر اس لیے قتل کر دیا گیا کہ وہ خاندانی روایات کے برخلاف ایک غیرسرکاری تنظیم میں کام کر رہی تھیں اور ان کے رشتے دار اس بات پر نالاں تھے۔

لیکن خاندانی ذرائع اسے جائیداد کے تنازع کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔

رواں ہفتے ہیں وائس آف امریکہ سے گفتگو میں خیبرپختونخواہ کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے ایسے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ زیادہ تر واقعات گھریلو اختلافات اور آپسی رنجشوں کا نتیجہ ہوتے ہیں اور ان کے بقول کسی کے گھریلو معاملات میں مداخلت کرنا حکومت کے لیے مشکل ہوتا ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات کے تدارک کے لیے مقامی پولیس تھانوں میں تنازعات کے حل کے لیے کمیشن بھی قائم کیے گئے ہیں۔

خواتین کے حقوق کی ایک سرگرم کارکن رخشندہ ناز کہتی ہیں کہ ایسے واقعات کے تدارک کے لیے قائم کیے گئے اداروں کو بھی پوری طرح سے آگاہی نہیں ہے کہ وہ ایسے معاملات میں کردار ادا کر سکتے ہیں یا نہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ جب تک قانون میں ایسے واقعات میں ملوث ملزمان کے لیے گنجائش موجود رہے گی انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا مشکل ہوگا۔

"جب تک قصاص و دیت اس معاملے میں رائج ہے تو پھر ان واقعات میں سمجھوتے بھی ہوتے رہیں گے۔۔۔ایسے بہت سے واقعات ہیں جس میں خاندان کے اندر ہی معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے تو پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام تو ختم ہو گیا نا، تو پھر لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے کہ وہ ایک طرف جرم کریں اور دوسری طرح جو قانونی سقم ہے اس سے وہ فائدہ اٹھا لیں۔"

خیبرپختونخواہ میں خواتین کے لیے قائم کمیشن کی سربراہ نیلم طورو کا بھی کہنا تھا کہ ایسے واقعات میں حالیہ دنوں میں کافی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے لیکن اس کی وجہ ان کے بقول یہ ہے کہ اب لوگ اس بارے میں رپورٹ کرتے ہیں۔

انھوں نے ایسے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایسے واقعات جب حکومت کے سامنے آئیں گے تو ان پر پالیسی بھی بنائی جائے گی اور ان کو بھرپور طریقے سے روکا بھی جائے گا۔

"کمیشن نے ایک مسودہ قانون بنایا جس میں گھریلو تشدد کے خلاف بنایا تھا جسے وزارت قانون کو بھجوا دیا گیا لیکن جب یہ اسلامی نظریاتی کونسل میں گیا تو وہاں سے تحفظات کے ساتھ اسے واپس بھیج دیا گیا۔ تو اب ہم ان سفارشات کو مدنظر رکھ کر دوبارہ بل تیار کر رہے ہیں۔"

پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے اور ایک اندازے کے مطابق ہر سال سیکڑوں خواتین ایسے ہی واقعات میں قتل کر دی جاتی رہیں۔

تاہم وفاقی حکومت نے گزشتہ سال ہی اس کے تدارک کے لیے ایک قانون منظور کیا جس میں اب غیرت کے نام پر قتل کے ملزم کو خاندان کا کوئی فرد معاف نہیں کر سکے گا۔

XS
SM
MD
LG