رسائی کے لنکس

لاہور: قرآن کی بے حرمتی کے ملزم کو 25 سال قید کی سزا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج شازب سعید نے وکلا کے دلائل اور گواہوں کے بیانات سننے کے بعد منگل کو ذوالفقار کو مجرم قرار دیتے ہوئے قید کے علاوہ اسے ایک لاکھ روپے جرمانہ اور اس کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دیا۔

لاہور میں ایک ذیلی عدالت نے ذوالفقار نامی ایک شخص کو قرآن کے صفحات کی بے حرمتی کے الزام میں 25 سال قید با مشقت سنائی ہے۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج شازب سعید نے وکلا کے دلائل اور گواہوں کے بیانات سننے کے بعد منگل کو ذوالفقار کو مجرم قرار دیتے ہوئے قید کے علاوہ اسے ایک لاکھ روپے جرمانہ اور اس کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دیا۔

ذوالفقار کے خلاف 2006 میں لاہور کے ریس کورس پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ملکی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں وقتاً فوقتاً توہینِ مذہب سے متعلق قوانین کے غلط استعمال پر آواز اٹھاتی رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بعض اوقات بے گناہ لوگوں کے خلاف ذاتی دشمنی کے باعث توہینِ مذہب کا الزام عائد کرکے ان کو جیل بھجوا دیا جاتا ہے۔

ایسے واقعات بھی منظر عام پر آ چکے ہیں صرف توہین مذہب کے الزام کی بنا پر لوگوں نے ہجوم کی شکل میں ملزم پر تشدد کر کے اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ برس کوٹ رادھا کشن میں رونما ہوا تھا جس میں ایک مسیحی جوڑے کو قرآن کے صفحات کی بے حرمتی کے الزام میں زندہ جلا دیا گیا تھا۔

اس مسئلے پر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئر پرسن زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی پر توہینِ مذہب کا الزام ہو تو سب سے پہلے اس کے ذہنی توازن کا معائنہ کرنے کی ضرورت ہے کیوں کوئی بھی باشعور شخص ایسا نہیں کر سکتا۔ انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں سندھ اسمبلی نے ایک بل بھی منظور کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’اگر کسی پر الزام ہو تو اس کا جینا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہاں لوگ ہجوم کی شکل میں خود ہی انصاف کرنے چل پڑتے ہیں۔ جیل کے اندر سے لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جیل کے اندر بھی لوگوں کی جان جا چکی ہے۔‘‘

انسانی حقوق کی تنظیموں کی کئی رپورٹس میں یہ نشاندہی کی گئی ہے کہذیلی عدالتوں پر توہینِ مذہب کے ملزمان کو زیادہ سے زیادہ سزا دینے کے لیے مذہبی گروہوں کی جانب سے بہت زیادہ دباؤ کا سامنا ہوتا ہے۔

بعد میں جب یہ مقدمات اعلیٰ عدالتوں میں جاتے ہیں تو اکثر ملزمان پر الزام ثابت نہیں ہوتا اور انہیں بری کر دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں یہ مسئلہ اتنا حساس ہو چکا ہے کہ توہینِ مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کے خلاف بھی آواز اٹھانے والوں کو بھی موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔ 2011 میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر اور اقلیتی امور کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو توہینِ مذہب قوانین کے تحت بے گناہوں کو پکڑنے کے خلاف آواز اٹھانے پر قتل کر دیا گیا تھا۔

XS
SM
MD
LG