رسائی کے لنکس

لاہور:ریلوے کی تاریخ اور مسائل


لاہور:ریلوے کی تاریخ اور مسائل
لاہور:ریلوے کی تاریخ اور مسائل

’’لاہور ریلوے اسٹیشن کےتیرہ پلیٹ فارم ہیں۔ نوے گاڑیوں کی روزانہ آمد ورفت ہوتی ہے ۔ جن میں ہزاروں لوگ سفر کرتے ہیں۔ مگر اس ریلوے اسٹیشن پر سہولیتں بڑھنے کی بجائے کم ہورہی ہیں۔ محض ایک پلیٹ فارم رہ گیا ہے جس پر ویٹنگ رومز موجود ہیں باقی کسی پلیٹ فارم پر کوئی ویٹنگ روم موجود نہیں ہے۔

لاہور کا ریلوے سٹیشن 1861میں تعمیر ہوا تھا اور سن دو ہزار گیارہ میں اس کی ایک سو پچاسویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔ جنوبی ایشیا میں ریل کا آغاز بھی لاہور کے ریلوے سٹیشن کی تعمیر سے ہواتھا اس لیے خطے میں ریلوے کی بھی ایک سوپچاسویں سالگرہ ہے۔

لاہور کا ریلوے اسٹیشن ایک قلعہ نما عمارت دکھائی دیتا ہےکیونکہ برطانوی ماہر تعیمر ولیم برنٹن نے اس کا نقشہ بناتے وقت اس بات کو بھی پیش نظر رکھا تھا کہ ضرورت پڑنے پراسے دشمنوں کے حملے کے خلاف ایک قلعے کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکے۔

تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ 1857کے خوں ریز واقعات کےفوری بعد ہی لاہور کا ریلوے اسٹیشن بننا شروع ہوگیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب انگریزحکمرانوں کو ہردم یہ خوف رہتا تھا کہ کہیں پھر سے کوئی بغاوت نہ ہوجائے۔

ہندوستان میں بغاوت تو نہ ہوئی مگر لاہور کا ریلوے اسٹیشن 1878 میں افغانوں کے ساتھ انگریزوں کی دوسری لڑائی کے دوران فوجی دستے اور جنگی ساز و سامان میدانِ جنگ بھجوانے میں ضرور کام آٰیا۔ روزانہ درجنوں ٹرینیں لاہور سے اسلحہ سمیت فوجیوں کو لے کر روانہ ہوا کرتی تھیں۔

لاہور:ریلوے کی تاریخ اور مسائل
لاہور:ریلوے کی تاریخ اور مسائل

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لاہور کے ریلوے اسٹیشن کی ایک ثقافتی پہچان بننا شروع ہوئی اور آہستہ آہستہ وہ اس قدر مضبوط ہوگئی کہ اب کسی کے لیے شاید ہی اس بات کی اہمیت ہو کہ برطانوی حکمرانوں نے بنیادی طور پر اس تنصیب کی تعمیرفوجی مقصد کے لیے کی تھی۔

اُردو ادب میں ریل کا ذ کر کثرت سے موجود ہے۔ لہذا لاہور ریلوے اسٹیشن کا درجنوں کہانیوں میں تذ کرہ ملتا ہے۔ برصغیر کی تاریخ میں بھی اس ریلوے اسٹیشن کو اہمیت حاصل رہی ہے۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح جب 1940کے تاریخی جلسے میں شرکت کے لیے لاہور پہنچے تو اسی ریلوے اسٹیشن پر سب سے پہلے اُن کا عظیم الشّان استقبال ہوا۔ لیکن1947کی قتل وغارت کا بھی یہ ریلوے اسٹیشن شاہد ہے جب ریل کے ڈبوں میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔

قیام پاکستان کے بعد ملک کی سیاست سے بھی اس ریلوے اسٹیشن کا گہرا رشتہ رہا ہے۔ ساٹھ کے عشرے میں اس دور کے صدر ایوب خان نے اپنے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو عہدے سے الگ کیا تو راولپنڈی کے ریلوے اسٹیشن پر بھٹو کو الوداع کہنے والے محض چند افراد تھے لیکن لاہور ریلوے اسٹیشن پر ذوالفقار علی بھٹو کا استقبال کرنے ہزاروں افراد پہنچے۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ واقعہ آگے چل کر پاکستان کی پیپلز پارٹی کے قیام کی ایک اہم وجہ بھی بنا۔

لاہور:ریلوے کی تاریخ اور مسائل
لاہور:ریلوے کی تاریخ اور مسائل

شو بزنس سے بھی لاہور اسٹیشن منسلک رہا ہے۔ اکثر پاکستانی فلموں میں جو ریلوے اسٹیشن دکھایا جاتا ہے وہ لاہور ہی کا ریلوے اسٹیشن ہوتا ہے کیونکہ فلمی صنعت کا مرکز قیامِ پاکستان کے وقت سے لاہور ہی رہا ہے۔ معروف انگریزی ناول نگارجان ماسٹرز کے ناول بھوانی جنکشن پر بننے والی ہالی وُڈ کی فلم کا کچھ حصہ بھی اسی ریلوے اسٹیشن پر فلمایا گیا تھا۔ پچاس کے عشرے میں اس فلم کی شوٹنگ کے لیے اس دور کی امریکی سُپر سٹارایوا گارڈنر لاہور آئی تھیں اور انھوں نے بھوانی جنکشن کے کچھ مناظر اسی ریلوے سٹیشن پر فلم بند کروائے تھے۔

اتنی مضبوط ثقافتی پہچان رکھنے والا پاکستان کا یہ سب سے بڑا ریلوے اسٹیشن آج کل سنگین مالی مسائل میں گھِرا ہے۔ اسٹیشن ماسٹر کے دفتر کے ایک اہلکار محمد رمضان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مالی مشکلات کی وجہ سے لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر سہولتیں بڑھنے کے بجائے کم ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیشن کے تیرہ پلیٹ فارم ہیں۔ پہلے بیشتر پلیٹ فارموں پر مردانہ اور زنانہ انتظار گاہیں یعنی ویٹنگ رومز ہوتے تھے لیکن اب محض چار نمبر پلیٹ فارم پر ایک مردانہ اور ایک زنانہ ویٹنگ روم موجود ہے جبکہ باقی کسی پلیٹ فارم پر بھی ویٹنگ رومز کی سہولت نہیں ہے۔ رمضان نے بتایا کہ ریلوے کے طرز مشرقی اور طرز مغربی ریستوران بھی اب محض پلیٹ فارم نمبر دو اور پلیٹ فارم نمبر چار پر ہیں جبکہ باقی پلیٹ فارموں پر پرائیویٹ سٹالز لگے ہیں۔

لاہور اسٹیشن پر روزانہ نوے ریل گاڑیوں کی آمد و رفت ہوتی ہے اور ہزاروں لوگ اس ریلوے اسٹیشن کے ذریعے سفر کرتے ہیں مگر ان مسافروں کے لیے سہولتیں تیزی سے کم ہوتی جارہی ہیں۔

اسٹیشن پر موجود شیر محمد نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ 1970سے لاہور ریلوے اسٹیشن پر قلی کے طور پر کام کررہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ریل گاڑیاں پہلے زیادہ تر وقت پر آتی تھیں مگر اب اکثر ٹرینیں لیٹ ہوتی ہیں۔’’ جب ہم ریلوے کے افسروں سے اس کی وجہ پوچھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ محکمہ کے پاس انجن بھی کم ہیں اور تیل بھی بہت کم مقدار میں موجود ہے جس وجہ سے ٹرینیں لیٹ ہوجاتی ہیں۔‘‘

شیر محمد نے بتایا کہ مسافروں کی تعداد 1970کی نسبت محض تھوڑی ہی کم ہوئی ہے کیونکہ اُن کے بقول اب بھی بہت سے لوگ ٹرینوں ہی میں سفر کرتے ہیں۔

حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے نعمان حسن کا تعلق حیدر آباد سے ہے اوروہ لاہور میں ایک نجی فرم میں ملازم ہیں۔ تیز گام کا انتظارکرنے کے دوران انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ ہر تین ماہ بعد حیدر آباد اپنے گھر جاتے ہیں اور ریل گاڑی ہی کے ذریعے جاتے ہیں کیونکہ ایک تو کرایہ نسبتاً کم ہے دوسرے سفر کے دوران چلنے پھرنے کی سہولت رہتی ہے۔

لاہور:ریلوے کی تاریخ اور مسائل
لاہور:ریلوے کی تاریخ اور مسائل

پلیٹ فارموں پر انتہائی رش کی وجہ نعمان حسن کے کہنے کے مطابق ٹرینوں کی آمدورفت میں تاخیر ہے۔ ’’ جب کبھی گاڑی وقت پر آتی ہے اور وقت پر روانہ ہوجاتی ہے تو پلیٹ فارم پر کوئی خاص رش دیکھنے میں نہیں آتا لیکن اگر گاڑی لیٹ ہوجائے تو جو لوگ مسافروں کو لینے آئے ہوتے ہیں اُن کی بڑی تعداد پلیٹ فارم پر جمع ہوجاتی ہے اور رش کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔‘‘

ٹرینوں کی آمد و رفت بروقت کرنے کے لیے ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان ریلویز کو انجنوں کی مرمت کے لیے اور ریل گاڑیوں کو مناسب مقدار میں تیل فراہم کرنے کے لیے اضافی مالی وسائل کی فوری ضرورت ہے جس کے لئے حکومت کو ریلوے کے محکمے نے یہ تجویز دے رکھی ہے کہ غیر منافع بخش ٹرینیں بند کردی جائیں ۔

ریلوے کے ترجمان اسلم شاہد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وفاقی حکومت پاکستان ریلوے کو تجارتی بنیادوں پر چلانے کے لیے اصرار کرتی ہے جس وجہ سے محکمہ کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ جاتا کہ حکومت کو غیر منافع بخش ٹرینوں کو بند کرنے کا کہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں ریلوے کے محکمے نے وفاقی حکومت کو ایک روڈ میپ بھی دے رکھا ہے۔

لاہور:ریلوے کی تاریخ اور مسائل
لاہور:ریلوے کی تاریخ اور مسائل

اسلم شاہد کا کہنا تھا کہ پاکستان ریلویز 250کے قریب ٹرینیں چلا رہا ہے جن میں سے محض چالیس ایسی ہیں جو ریلوے کی کُل آمدنی کا اسّی فیصد کماتی ہیں جبکہ باقی دو سو سے زیادہ ٹرینیں خسارے میں چل رہی ہیں۔’’دُنیا کے بیشتر ملکوں میں ریلوے کا نظام حکومت کی امداد کے سہارے ہی چلتا ہے اوراگرپاکستان میں ریلوے کے محکمے کو غیر منافع بخش ٹرینیں بند نہیں کرنے دی جائیں گی تو پھر مالی وسائل کے لئے یہ ادارہ حکومت کی مزید امداد ہی کا محتاج رہے گا۔‘‘

ریلوے کے ترجمان کہتے ہیں کہ تیل کی ایک ٹرین نوے کروڑ روپے سالانہ کما لیتی ہے۔ جب کہ غیرمنافع بخش ایک سو دو ٹرینوں کی کل آمدن پچھتر کروڑ روپے بنتی ہے۔

XS
SM
MD
LG