رسائی کے لنکس

امن مذاکرات کے لیے سیاسی قوتوں کے اتحاد پر زور


امریکی ڈرون حملے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر حکومت اور سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس سے مجوزہ بات چیت کے عمل کو نقصان پہنچا۔

پاکستان میں حکومت، حزب مخالف کی سیاسی جماعتوں اور علماء کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طالبان سے امن مذاکرات کے سلسلے میں جو رابطہ منقطع ہوا ہے اُسے بحال کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنی ہوں گی۔

گزشتہ جمعہ کو ڈرون حملے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر حکومت اور سیاسی جماعتوں کا کہنا تھا کہ اس میزائل حملے سے مجوزہ امن مذاکرات کے عمل کو نقصان پہنچا۔

طالبان سے مذاکرات کا معاملہ منگل کو دوسرے روز بھی قومی اسمبلی میں موضوع بحث رہا۔

امن مذاکرات کے سلسلے میں اہم حیثیت رکھنے والی سیاسی و مذہبی جماعت جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کا ایک اور اجلاس بلا کر مستقبل کی حکمت عملی کا تعین کیا جائے۔
مولانا فضل الرحمٰن
مولانا فضل الرحمٰن

’’پشاور اور دیر کے واقعات ہوئے تو حکومت کی جانب سے تعطل آیا، اب جو وہاں ڈرون حملہ ہوا ہے تو اُن (طالبان) کی طرف سے تعطل آیا ہے۔ ہمیں اب روابط میں حکمت کا مظاہرہ کرنا ہو گا، بہت سے لوگ ہیں وہاں بھی جو مذاکرات کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور بہت سے لوگ ہیں جو یہاں کے رویوں سے (متعلق) شکایت کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

وزیر اعظم نواز شریف نے بھی پیر کی شب کابینہ کے خصوصی اجلاس سے خطاب میں کہا تھا کہ ڈرون حملے سے مذاکرات اور قیام امن کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچا ہے، تاہم اُنھوں نے اس یقین کا بھی اظہار کیا کہ مذاکرات کے لیے کی جانی والی کوششوں کو پٹڑی سے نہیں اترنے دیا جائے گا۔

وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے قومی اسمبلی سے خطاب میں کہا کہ حکومت سیاسی جماعتوں کی متعین کردہ راہ پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی۔

’’ہم صرف یہ چاہتے ہیں جہاں یہ سلسلہ ٹوٹا تھا وہ پھر بحال ہو، اگر امریکہ کی وجہ سے یہ مسئلہ پھر تناؤ کا شکار ہوا ہے تو اس کی نا حکومت پاکستان ذمہ دار ہے، نا پاکستانی افواج اور نا ہی طالبان۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ ہم اُسی راستے پر چلیں۔‘‘

اُدھر اسلام آباد میں علماء و مشائخ کی کانفرنس میں بھی شدت پسندی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت کی طرف سے مذاکرات کی کوششوں کی حمایت کا اعلان کیا گیا۔

کانفرنس سے خطاب میں وزیر مملکت برائے مذہبی اُمور امین الحسنات شاہ نے کہا کہ ’’ہم قانون اور آئین کے اندر رہتے ہوئے، ملک کے وسیع تر مفاد میں اس مذاکراتی عمل کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘
وزیرِ اعظم نواز شریف
وزیرِ اعظم نواز شریف

وزیر اعظم نواز شریف یہ کہہ چکے ہیں کہ خون ریزی کے خاتمے کے لیے سیاسی و عسکری قیادت کے علاوہ سول سوسائٹی بھی دہشت گردی کا مسئلہ سنجیدہ اور بامقصد مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس مسئلے کی سنگینی کا احساس ہے اور پاکستان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود کرے۔
XS
SM
MD
LG