رسائی کے لنکس

ججوں کی تقرری کے سرکاری فیصلے کے خلاف وکلا ء کی طرف سے عدالتوں کا بائیکاٹ


ججوں کی تقرری کے سرکاری فیصلے کے خلاف وکلا ء کی طرف سے عدالتوں کا بائیکاٹ
ججوں کی تقرری کے سرکاری فیصلے کے خلاف وکلا ء کی طرف سے عدالتوں کا بائیکاٹ

چیف جسٹس افتخا ر محمد چوہدری کی سفارشات کے برعکس صدر آصف علی زرداری کی طرف سے ججوں کی تعیناتی کے فیصلے کو سپریم کورٹ کی طرف سے ہفتے کے روز معطل کیے جانے کے بعد عدلیہ اور حکومت کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے شروع ہونے والی بحث تیسرے روز بھی جاری ہے

وکلاء کی قومی رابطہ کونسل کی اپیل پرملک کی اعلیٰ اور ذیلی عدالتوں میں حکومت کے فیصلے کے خلاف پیر کے روز ہڑتال کی گئی ۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر قاضی انورنے بتایا ہے کہ اس ہڑتا ل کا مقصد عدلیہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا ہے ۔

اُدھر اس معاملے پر ایوان بالا یعنی سینیٹ کے اجلاس میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے قائدین نے کہا کہ ججوں کی تعیناتی کے معاملے پر حکومت کی طرف سے کیے جانے اقدامات سے ملک میں اداروں کے درمیان تصادم کا خطرہ بڑھ گیا ہے جس سے اُن کے بقول عدم استحکام پیدا ہو گیا ہے۔ ان بیانات کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے اراکین نے واک آؤٹ کیا جب کہ حکومت میں شامل اراکین سینیٹ کا کہنا ہے کہ ججوں کی تعیناتی کے حوالے عدالت عظمیٰ میں مزید کارروائی ابھی ہونا باقی ہے اس لیے اس معاملے پر کسی طرح کی بیان بازی سے اجتناب کرناچاہیئے۔

وکلاء کی قومی رابطہ کونسل کا کہنا ہے کہ اُن کی اپیل پر ملک بھر میں وکلاء نے عدالتوں کا مکمل بائیکاٹ کیا تاہم پاکستان بار کونسل کے سابق رکن اور سینیئر وکیل رمضان چوہدری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ معاملہ عدالت کے سامنے ہے اس لیے اُن کے بقول اس طرح کی ہڑتال کی ضرورت نہیں تھی ۔

خیال رہے کہ وزیراعظم یوسف رضاگیلانی سے مشاورت کے بعد صدر آصف علی زرداری نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ شریف کو سپریم کورٹ کا جج جب کہ جسٹس ثاقب نثار کو لاہور ہائی کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کیا تھا لیکن عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے اس نوٹیفکیشن کے اجراء کے کچھ ہی دیر بعد از خود نوٹس لیتے ہوئے ججوں کی تعیناتی کے اس فیصلے کو یہ کہہ کر معطل کر دیا تھا کہ آئین کی شق 177 کے ججوں کی تقرر ی کرتے وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی مشاور ت لازمی ہوتی ہے لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا ہے۔

دوسری طرف حکومت کے قانونی مشیروں کا کہنا ہے کہ مشاورت کا عمل مکمل کرنے کے بعد ہی ججوں کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا او ر اس میں سپریم کورٹ کے وضع کردہ فیصلوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہی لاہور ہائی کورٹ کے سب سے سینیئر جج کو عدالت عظمیٰ میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔

سابق اٹارنی جنرل اور حکمر ان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنماء لطیف کھوسہ کا کہنا ہے کہ 18 فروری کو اس مقدمے کی دوبارہ سماعت کے دوران حکومت ان ہی نکات کو سامنے رکھ اپنا مئوقف بیان کرے گی۔

XS
SM
MD
LG