رسائی کے لنکس

پاکستان: فیس بک پر لڑکی کو بلیک میل کرنے پر ’پہلی سزا‘


فائل فوٹو
فائل فوٹو

لڑکی کے اہل خانہ کی درخواست پر وفاقی تحقیقاتی ادارے ’آیف آئی اے‘ نے ملزم کے خلاف کارروائی کی، جس کے بعد عدالت نےعامر عبدالقیوم کو قصور وار پاتے ہوئے الیکٹرانک ٹرانزیکشنز ایکٹ کے تحت تین سال قید اور 25 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔

اسلام آباد میں ایک ذیلی عدالت نے ایک شخص کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر جعلی اکاؤنٹ بنانے اور ایک لڑکی کو بلیک میل کرنے کے الزام میں تین سال قید اور 25 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔

شائع شدہ اطلاعات کے مطابق اسلام آباد کے ایک بس کنڈکٹر عامر عبدالقیوم جنجوعہ نے یہاں تعلیم کے لیے آنے والی طالبہ سے فیس بک پر دوستی کی اور بعد میں شادی پر اصرار کیا۔ جب لڑکی نے انکار کیا تو ملزم نے اس کی ذاتی تصاویر کو فیس بک پر شائع کر دیا۔

لڑکی کے اہل خانہ کی درخواست پر وفاقی تحقیقاتی ادارے ’آیف آئی اے‘ نے ملزم کے خلاف کارروائی کی، جس کے بعد عدالت نے عامر کو قصور وار پاتے ہوئے الیکٹرانک ٹرانزیکشنز ایکٹ کے تحت تین سال قید اور 25 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔

انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’بائٹس فار آل‘ کے عہدیدار فرحان حسین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس سے قبل بھی بہت سے ایسے کیسوں میں ملزموں سے تفتیش کی گئی یا انہیں گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے علم کے مطابق یہ پہلا کیس ہے جس میں کسی ملزم کو سزا سنائی گئی۔

فرحان حسین کا کہنا تھا کہ عورتوں کے خلاف تشدد چاہے وہ آن لائن ہو یا آف لائن بہت سنگین مسئلہ ہے۔

’’بہت سی خواتین کی تصاویر کو آن لائن ذرائع سے حاصل کر کے انہیں بلیک میل کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔‘‘

پاکستان میں سائبر کرائمز بل طویل عرصہ سے پارلیمان میں زیر التوا ہے اس لیے موجودہ کیس میں مجرم کو سزا دینے کے لیے الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کی شقوں کو استعمال کیا گیا۔

تاہم فرحان حسین کا کہنا تھا کہ ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے کسی خصوصی قانون کی ضرورت نہیں کیونکہ بلیک میلنگ، کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے یا کسی کا پیچھا کرنے سے متعلق ملک میں پہلے سے قوانین اور سزائیں موجود ہیں تاہم اس کے بارے میں لوگوں کو آگاہی نہیں۔

’’پولیس آن لائن جرائم کو سنگین نہیں سمجھتی۔ حالانکہ ہم نے بار بار یہ چیز دیکھی ہے کہ جو چیزیں آن لائن شروع ہوتی ہے وہ آف لائن تشدد میں تبدیل ہو جاتی ہے اور جو چیزیں آن لائن چیزوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں جس میں استحصال، نفرت آمیز بیانات، بلیک میل، پیجھا کرنا وغیرہ۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد کار کو بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ بعض اوقات پولیس وہ شقیں استعمال نہیں کرتی جنہیں ایسے جرائم میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG