رسائی کے لنکس

پاکستانی ذرائع ابلاغ کے اختلافات 'خطرناک' ہیں: مبصرین


پرویز رشید
پرویز رشید

وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ حکومت میڈیا کی آزادی کے تحفظ کے عزم پر قائم ہے لیکن ذرائع ابلاغ کو خود بھی اپنے رویوں پر غور کرنا چاہیئے۔

پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل "جیو" کے مارننگ شو میں متنازع مواد دکھائے جانے کے بعد ادارے کی طرف سے اس پر معذرت تو سامنے آچکی ہے لیکن اس معاملے پر جہاں ایک طرف ملک میں مختلف میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں میں اختلافات زور پکڑتے دکھائے دیتے ہیں وہیں مذہبی جماعتوں کی طرف سے جیو کے خلاف توہین مذہب کے مبینہ ارتکاب پر مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں۔

جیو اور جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمن، مارننگ شو کی میزبان شائستہ لودھی، اس پروگرام میں مدعو کی گئی اداکارہ وینا ملک اور ان کے شوہر اسد کے خلاف اسلام آباد کے ایک تھانے میں مقدمہ بھی درج کیا جا چکا ہے۔

پولیس کے مطابق یہ مقدمہ ایڈیشنل جج کی ہدایت پر ایک شہری کی درخواست پر دائر کیا گیا جس میں توہین مذہب اور مقدس شخصیات کی توہین کے علاوہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔

پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی نگرانی اور ان کے انتظامی امور پر نظر رکھنے والا ادارہ پیمرا جیو کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرچکا ہے لیکن بدھ کی صبح نشر کیے گئے پروگرام سے شروع ہونے والے تنازع کے بعد سے اتوار کی شام تک حکومت کی طرف سے اس ساری صورتحال پر کسی بھی طرح کا تبصرہ سامنے نہیں آیا تھا۔

تاہم اتوار کی شام وفاقی وزیراطلاعات و نشریات پرویز رشید نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ حکومت پوری طرح سے معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہے اور مشاورت کے ساتھ جلد ہی اس بارے میں اقدام سامنے آ جائے گا۔

"متعلقہ اداروں سے بات چیت چل رہی ہے، وزیراعظم نے کمیٹی بنائی ہے کہ جب بھی کوئی پیمرا قوانین کی خلاف ورزی کرے تو ایک ایسا ارادہ اس کے بارے میں فیصلہ کرے جس پر سب بھروسہ کریں اور اس کے فیصلے کو سب مانتے ہوں جلد اس پر کام مکمل کر لیا جائے گا۔"

پاکستان کے مقامی ٹی وی چینلز پر روزانہ شام کو دکھائے جانے والے مباحثوں کے پروگرام میں جیو کے متنازع پروگرام اور اس کے ردعمل پر بڑھ چڑھ کر گفتگو ہوتی چلی آرہی ہے جس میں صحافتی برادری کے درمیان پائے جانے والے اختلافات پر متعدد سنجیدہ حلقے خاصے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔

سینیئر صحافی اور ایک موقر انگریزی اخبار ایکسپریس ٹربیون کے ایگزیکٹو ایڈیٹر محمد ضیاء الدین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس ساری صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ نہ صرف پاکستانی ذرائع ابلاغ بلکہ جمہوریت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔

"میں دیکھ رہا ہوں کہ نہ صرف ایک سیکشن میڈیا کا کنفرنٹیشن جاری رکھے ہوئے ہے اور پھر ایک اختلاف جو ہے وہ سخت پیدا ہوگیا ہے، مثال کے طور پر اگر جیو یا جنگ گروپ کو کوئی نقصان پہنچتا ہے ان پر کوئی قدغن لگتی ہے یا ان کو جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے تو اس کے بعد ایک معیار طے ہو جائے گا۔۔۔تو جب دوسری میڈیا آرگنائزیشن اس پر عمل نہیں کر سکیں گی یا حکومت وقت یہ سمجھے کہ عمل نہیں ہو رہا تو وہ ان پر بھی قدغن لگا سکتی ہے اس کا مطلب ہے کنٹرول اور دوسری طرف جو فتوے دیے جا رہے ہیں مولوی سڑکوں پر آرہے ہیں وہ بھی خطرناک چیز ہے تو حالات بہت خراب ہیں۔"

جیو کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں بڑے مظاہرے بھی دیکھنے میں آچکے ہیں جب کہ کیبل آپریٹرز کی طرف سے بھی اس چینل کو ٹی وی پر آخری نمبروں پر منتقل کرنے کے علاوہ بعض علاقوں میں اس کی نشریات بند کرنے کی اطلاعات بھی ہیں۔

اس بارے میں وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ حکومت ذرائع ابلاغ کی آزادی کے تحفظ کے عزم پر قائم ہے لیکن میڈیا کو خود بھی اپنے رویوں پر نظر رکھنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ضروری ہے کہ کسی بھی طرح کی شکایت کی صورت میں متعلقہ اداروں سے رابطہ کیا جائے۔

"یہ اختیار کسی کو بھی نہیں کہ وہ خود ہی وکیل بن جائے خود ہی مدعی بن جائے خود ہی منصف بن جائے، اسٹریٹ جسٹس کا رواج پاکستان میں نہیں ہونا چاہیئے اور اسٹریٹ جسٹس کا رواج پاکستان میں نہیں ہوسکتا۔ انصاف کے لیے آپ کو قانونی اداروں کی طرف دیکھنا ہوگا۔"

جیو کی انتظامیہ یہ کہہ چکی ہے کہ متنازع مواد نادانستہ طور پر نشر ہوا جس کی وہ معافی مانگ چکے ہیں اور اس کے علاوہ اس مارننگ شو کی میزبان اور دیگر متعلقہ لوگوں کو غیر معینہ مدت کے لیے معطل بھی کر دیا گیا ہے۔
XS
SM
MD
LG