رسائی کے لنکس

’آزادی اظہار پر پابندیاں‘، سینیئر صحافیوں کی مذمت


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے لگ بھگ 60 معروف صحافیوں، اخبارات کے مدیروں نے ’آزادی اظہار پر پابندیوں‘ کی مذمت کی ہے۔

سینیئر صحافیوں کی طرف سے جاری بیان کے مطابق ’’منتخب میڈیا گروپ کے خلاف کریک ڈاؤن اور کچھ چینلز کی نشریات پر پابندی کی شروعات‘‘ کے بعد دیگر نشریاتی اداروں پر بھی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے کہ وہ ’’انسانی حقوق‘‘ کی بعض تحریکوں کی کوریج سے باز رہیں۔

بدھ کو جاری ہونے والے اس بیان پر حکومت کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

پاکستان کے ایک بڑے نجی ٹیلی ویژن چینل کی نشریات ملک کے بہت سے حصوں میں گزشتہ لگ بھگ ایک مہینے سے بند ہیں۔

حکومتی عہدیدار اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ’پیمرا‘ کا اصرار ہے کہ اُنھوں نے جیو نیوز کی نشریات پر کوئی قدغن نہیں لگائی ہے۔

بلکہ پیمرا نے کیبل آپریٹرز کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ جیو کی معمول کی نشریات کو بحال کریں بصورت دیگر اُن کے لائسنس منسوخ کیے جا سکتے ہیں۔

سینیئر صحافیوں کی طرف سے جاری بیان کے مطابق دباؤ کا شکار میڈیا مینیجرز، رائے پر مبنی کالم یعنی ’او پیڈز‘ شائع نہیں کر رہے ہیں اور آن لائن ایڈیشن پر پہلے شائع شدہ بعض مضامین ہٹائے جا رہے ہیں۔

پاکستان کے ایک بڑے اخبار ’جنگ‘ سے وابستہ معروف کالم نگار وجاہت مسعود نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کے کالم روکے جا رہے ہیں۔

وجاہت مسعود نے کہا کہ ’’کوئی باضابطہ اعلان تو نہیں البتہ 2014 سے غیر اعلانیہ سینسر شپ جاری ہے۔ میں (کالم شائع نا ہونے پر) اپنے اخبار سے شکایت نہیں کر سکتا کیوں کہ اخبار کو خود سینسر شپ کا سامنا ہے۔‘‘

روزنامہ 92 کے گروپ ایڈیٹر ارشاد عارف بعض کالم نا چھاپنے کا ذمہ دار اخبارات کو نہیں ٹھہراتے بلکہ اُن کا کہنا ہے کہ صحافیوں اور کالم کاروں کا اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا چاہیئے۔

ارشاد عارف کہتے ہیں کہ ’’مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا میں کچھ فرق ہے۔ اخبارات کو بھیجنے سے قبل لکھاری کو سوچنا چاہیے۔ جب کچھ چھپ جاتا ہے تو وہ ایڈیٹر اور اخبار کی ذمہ داری ہوتی ہے۔‘‘

صرف ادارتی صفحات ہی دباؤ کا شکار نہیں ہیں بلکہ بعض ٹی وی چینلز اور کچھ اخبارات نے ماروائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے خلاف پشتون تحفظ موومنٹ کی کوریج بھی نہیں کی۔

پشتون تحفظ موومنٹ ’پی ٹی ایم‘ سے خطاب کرنے والے ملک کی فوج اور انٹیلی جنس اداروں کے ناقد ہیں کیوں کہ اُن کے مطابق مبینہ طور پر یہ ادارے جبری گمشدگیوں کے پیچھے ہیں۔

ایک صحافی زمان کاکڑ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کا ایک مضمون ’’پی ٹی ایم کیوں اہم ہے‘‘ انگریزی اخبار ’’دی نیوز‘‘ میں شائع ہوا تھا لیکن چھپنے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد اُسے اخبار کی ویب سائیٹ سے ہٹا دیا گیا۔

زمان کاکڑ نے کہا کہ ’’جب ٹیلی فون پر اس کے بارے میں نے پوچھا تو میرے ایڈیٹر نے بتایا کہ اُنھیں کہا گیا کہ کہ اس مضمون کو ہٹا دو۔۔۔ ایڈیٹر نے مجھے کہا کہ پی ٹی ایم نہیں کسی اور مضمون پر لکھو۔‘‘

نیویارک میں قائم تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس ’سی پی جے‘ کے سٹیو بٹلر اس صورت حال کو بدقسمت قرار دیتے ہیں۔

سٹیو بٹلر نے کہا کہ ’’میرے خیال میں پاکستانی عوام کو معلومات تک مکمل رسائی ہونی چاہیئے تاکہ وہ خود انتخاب کر سکیں کہ آئندہ انتخابات میں اُنھیں کس کی حمایت کرنی ہے۔‘‘

رواں سال جولائی میں پاکستان میں آئندہ انتخابات متوقع ہیں لیکن اس کی حتمی تاریخ کا اعلان تاحال نہیں کیا گیا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر نجی میڈیا طاقتور حلقوں کی جانب سے دباؤ میں رہے گا تو آزاد اور شفاف انتخابات ممکن نہیں ہیں۔

XS
SM
MD
LG