رسائی کے لنکس

معاشرے سے انتہاپسندانہ رجحانات کے خاتمے کا عزم


معاشرے سے انتہاپسندانہ رجحانات کے خاتمے کا عزم
معاشرے سے انتہاپسندانہ رجحانات کے خاتمے کا عزم

پاکستان میں مذہبی اقلیتی برادری کے نمائندوں نے کہا ہے کہ وہ اُن انتہا پسند اور دہشت گرد قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے جو پاکستان میں مذہب کے نام پرتفریق پیدا کر کے ملک کی بنیادیں کمزور کرنا چاہتی ہیں۔

اس عزم کا اظہار ہفتے کو اسلام آباد میں پارلیمان کے سامنے کل پاکستان اقلیتی اتحاد کے زیر اہتمام ایک اجتماع میں کیا گیا جس میں سینکڑوں مسیحوں کے علاوہ ہندو، سکھ اور مسلم برادری کے نمائندے بھی شریک تھے۔

اجتماع میں اتحاد کے مقتول رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

مخلوط حکومت میں شامل جماعت عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر اور جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن کی آسیہ ناصر کے علاوہ اقلیتی برادری کے مختلف ممبران صوبائی اسمبلی نے بھی اجتماع میں شرکت کی اور اپنی تقاریر میں کہا کہ پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے لوگ بین المذاہب ہم آہنگی، امن و سلامتی، اور استحکام کے فروغ کے لیے مشترکہ جدوجہد کریں گے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ تمام مذہبی اقلیتوں اور فرقوں کے حقوق کا مکمل تحفظ ہو۔

بشریٰ گوہر نے یقین دلایا کے ان کی جماعت دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف ڈٹ کر لڑے گی جو اُن کے بقول اقلیتوں سمیت پاکستان بھر کے عوام کو خوف زدہ کرکے ان پر حاوی ہونا چاہتے ہیں۔

آسیہ ناصر جو اقلیتی امور پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی ممبر بھی ہیں نے کہا کہ شہباز بھٹی نے پاکستان میں بین المذہب ہم آہنگی کے لیے قابل ستائش کردار ادا کیا اور ان کی جماعت اس مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کے آئین کے مطابق تمام اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔

اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مسیحی برادری کے نمائندوں نے کہا کہ وہ پاکستان میں ایک ایسے معاشرے کو مستحکم بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے جس میں مذہب رنگ ،نسل اور فرقے کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہ ہو۔

شہباز بھٹی کو پچھلے ماہ کے شروع میں اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ کے قریب ایک گاڑی میں سوار نامعلوم مسلح افراد نے اس وقت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا جب وہ اپنے دفتر کی طرف روانہ تھے۔

شہباز بھٹی اقلیتوں کے حقوق کے سرگرم کارکن اور توہین رسالت ایکٹ میں ترمیم کے حامی تھے. اگرچہ ان کے قتل سے پہلے اور اس کے بعد بھی وفاقی حکومت واضع طور پر کہ چکی ہے کہ اس قانون میں کسی قسم کی ترمیم نہیں کی جائے گی۔

XS
SM
MD
LG