وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ ”دوسرے ممالک کو پہلے تو اپنے گھر کے اندر دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنے قوانین پر کتنا عمل درآمد کررہے ہیں“۔ اُنھوں کہا کہ پاکستان میں جو قوانین بنتے ہیں ان پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے ۔
قمرزمان کائرہ کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر معاشروں میں بعض اوقات قوانین کی خلاف ورزیاں ہوجاتی ہیں اور اُن کے بقول اس کے کچھ کلچرل یا ثقافتی پہلو بھی ہیں لیکن ’ ’اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان میں قانون پر عمل درآمد نہیں ہوتا یہ وہی ”ڈکٹوریل سیٹ اپ “ہیں جنہوں نے ہمارے قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں جس کو آج تک دنیاسپورٹ کرتی رہی ہے“۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستانی سماج اس سارے ”مائند سیٹ “ سے جان چھڑانے کی کوشش کررہا ہے ۔ اُنھوں نے کہا کہ خواتین اور مزدور وں کے حقوق کے تحفظ کا جو بل منظور ہوا ہے اس پر عمل درآمد ہورہا ہے اور آئندہ بھی ہو گا۔
امریکی محکمہ خارجہ کی سالانہ رپورٹ میں پاکستان میں بسنے والی اقلیتو ں کے حوالے جن خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے اُن کا جواب دیتے ہوئے اقلیتی اُمور کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی نے بتایا کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ اقلیتوں کے لیے ملازمتوں میں پانچ فیصد کوٹہ مقرر کیا گیا ہے اور اُ ن کے بقول اقلیتوں کے خلاف امتیازی قوانین پر بھی نظر ثانی کی جارہی ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ اقلیتی برادری کو تمام اداروں میں نمائندگی دی جارہی ہے اوراُن کی مذہبی آزادی کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔
شہباز بھٹی نے کہا کہ بانی پاکستان کا کہنا تھا کہ اس ملک میں بسنے والے تمام لوگ بلا رنگ و نسل اور بغیر کی مذہبی تفریق کے سب برابر شہری ہوں گے۔ اُنھوں نے بھی کہا حکومت اقلیتوں کے خلاف ہونے والے کسی بھی اقدام کا فوری نوٹس لیتی ہے اور اس حوالے سے اُن کی وزارت میں ایک خصوصی ”ہاٹ لائن“ فوری رابطے کا سیل بھی بنا دیا گیا ہے جس کا م اقلیتوں کو پیش آنے والے کسی بھی مسئلے کی صورت میں متاثرہ لوگوں کو فوری امداد فراہم کرنا ہے ۔
شہباز بھٹی کے بقول موجودہ حکومت کی یہ واضح پالیسی ہے کہ پسے ہوئے طبقات کا معیار زندگی بہتر کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت”مائناریٹیز پروٹیکیشن“ یا اقلیتوں کے تحفظ کا ایک بل پارلیمان میں لا رہی ہے جس کے تحت اقلیتوں کے خلاف امتیازی قوانین میں آئندہ سالوں میں مناسب ترامیم کی جائیں گی تاکہ ان کا غلط استعمال روکا جاسکے جب کہ اقلیتوں کے اغواء اور مذہب کی تبدیلی ایسے معاملات کا جائزہ لینے کے لیے چاروں صوبوں میں ”مانیٹرنگ سیل “ بھی قائم کیے جائیں گے ۔