رسائی کے لنکس

پاکستانی حکام سے بات چیت جاری ہے تاکہ معاہدے پر جلد پہنچا جا سکے: آئی ایم ایف


پاکستان کی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے جلد طے پانے والا ہے جس سے ملک کو معاشی مشکلات سے نکالنے میں مدد ملی گی۔ تاہم معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پر عمل کر لیا ہے اور اب اس میں رکاوٹ بظاہر سیاسی وجوہات کے باعث ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب پاکستان کے پاس وقت کم ہے اور اگر آئندہ 24 سے 48 گھنٹوں کے درمیان معاہدہ نہ ہوا تو یہ پروگرام ختم ہو جائے گا۔

آئى ایم ایف کا کہنا ہے کہ اسکی ٹیم پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ عالمی ادارے کے ساتھ قرض کے معاہدے پر جلد پہنچا جا سکے۔

آئى ایم ایف کے ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کے سر براہ ، نیتھن پورٹرنے پاکستان کے ساتھ قرض کی بحالی کے معاہدے کےحوالےسے وائس آف امریکہ کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ گزشتہ چند دنوں میں پاکستانی حکام نے اپنی پالیسیوں کوبین الاقوامی مالیاتی فنڈ کےمعاشی اصلاحات کے پروگرام کے ساتھ مزید ہم آہنگ کرنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کیے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ان اقدامات میں پارلیمنٹ کی جانب سے ایسے بجٹ کی منظوری، جس میں ٹیکس بیس کو وسعت دینے کے علاوہ زیادہ ترقیاتی اور سماجی اخراجات کی گنجائش بھی پیدا کی گئی ہے،اس کے ساتھ ہی بیرونی ایکسچینج مارکیٹ یا منی مارکیٹ کی سرگرمیوں میں بہتری اور افراط زر اور ادائیگیوں کے توازن میں دباؤ کم کرنے کے لیے مالیاتی پالیسی سخت کرنا بھی شامل ہے، جس سے بالخصوص عام افراد زیادہ متاثر ہوتےہیں۔۔

'آئی ایم ایف سے مذاکرات، اخباری بیان بازی سے نہیں کیے جاتے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:18 0:00

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے میں مختلف رکاوٹیں حائل رہیں جن میں سے بیشتر کو اب دور کردیا گیا ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ امید ہے کہ جلد اس بارے میں اسٹاف لیول معاہدہ ہو جائے۔

آئی ایم ایف کا سب سے بڑا مطالبہ رواں مالی سال میں واپس کیے جانے والےقرضوں کے لیے فنڈز کا بندوبست کرنا تھا۔ پاکستان نے دوست ممالک سے کچھ فنڈز جمع کیے، کچھ واپس کیے اور چین سمیت کچھ ممالک سے ری شیڈول کرا لیے ہیں۔

حالیہ بجٹ پر آئی ایم ایف کو بہت سے اعتراضات تھے جنہیں بجٹ پاس کروانے کے وقت بعض ماہرین کے مطابق خاموشی سے بجٹ میں شامل کردیا گیا اور بجٹ منظور کرلیا گیا ہے۔

آئی ایم ایف کی طرف سے بیرونِ ملک سے ایک لاکھ ڈالر لانے پر کسی پوچھ گچھ نہ ہونے کے اقدام کو واپس لے لیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ 215 ارب کے نئے ٹیکسز بھی لگا دیے گئے ہیں۔

دو لاکھ سے زائد آمدن والے ملازمت پیشہ افراد پر 2.5 فی صد ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے۔آئی ایم ایف کے مطالبے پر ہی درآمدات پر عائد پابندی بھی ہٹا دی گئی ہے۔

پاکستان میں اسٹیٹ بینک کی طرف سے موجودہ شرح 21 فی صد پہلے ہی زیادہ سمجھی جاتی تھی لیکن آئی ایم ایف کے کہنے پر شرح سود میں 100 بیس پوائنٹس یعنی ایک فی صد کا اضافہ کرکے اب یہ شرح 22 فی صد کردی گئی ہے۔


پاکستان کی طرف سے یہ سب اقدامات کیے جانے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ حکومتی سطح پر رابطے بھی کیے جارہے ہیں اور وزیراعظم شہباز شریف بھی اس عمل میں براہ راست کوششیں کررہے ہیں ۔

منگل کی صبح شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی سربراہ سے ایک بار پھر رابطہ کیا اور امید ظاہر کی کہ پروگرام کے نکات پر ہم آہنگی آئندہ ایک دو دن میں آئی ایم ایف فیصلے کی شکل اختیار کرلے گی۔

اس سے قبل وزیرِاعظم شہباز شریف نے کرسٹینا جارجیوا سے پیرس میں ملاقات کرکے معاہدے کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔

'معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سیاسی لگتی ہے'

معاشی تجزیہ کار قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہ ہونا بظاہر سیاسی وجوہات کا شاخسانہ لگتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جب یہ سیاسی شرائط تسلیم کرلی جائیں گی اس وقت پاکستان اور آئی ایم کے درمیان معاہدہ ہو جائے گا۔

پاکستان کی حکمت عملی کے حوالے سے قیصر بنگالی نے کہا کہ پاکستان اس وقت شارٹ ٹرم حل کی طرف جا رہا ہے اور اثاثے بیچے جارہے ہیں۔

اُن کے بقول کراچی کا پورٹ ٹرمینل امارات کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ سعودی ٹیم ملک بھر کے ایئر پورٹس دیکھ کر گئی ہے۔ اس سے ظاہر ہورہا ہے کہ ملک کے اثاثے بیچ کر معاملات چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی کے بقول گزشتہ 20 برس سے جو پالیسیاں چل رہی ہیں انہی کا تسلسل ہے اور بہتری نہیں لائی جارہی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اکانومی فری فال میں ہے۔صنعتیں بند ہورہی ہیں، مہنگائی میں کمی نہیں ہورہی، پاکستانی معیشت اس وقت منفی درجوں میں ہے اور اس وقت حالات بہتر ہونے کے کوئی آثار بھی نظر نہیں آ رہے۔

آئی ایم ایف پروگرام ملنے کے بعد کی صورتِ حال پر انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کے آنے سے پاکستان کو ایک ارب ڈالر ملے گا اور رواں سال دسمبر تک پاکستان کو دس ارب ڈالر واپس کرنے ہیں۔

'آئی ایم ایف کے کہنے پر پورا بجٹ ہی تبدیل کر دیا گیا'

سینئر صحافی مہتاب حیدر کہتے ہیں کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے کہنے پر اپنا پورا بجٹ تبدیل کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایمنسٹی اسکیم واپس لے لی گئی ہے اور 215 ارب کے ٹیکس لگا دیے گئے ہیں۔

مہتاب حیدر نے کہا کہ پاکستان کے پاس وقت بہت کم ہے، آئندہ 24 سے 48 گھنٹوں میں کچھ نہ کچھ لازمی ہونا چاہیے تاکہ اسٹاف لیول معاہدہ ہوجائے۔

اُن کے بقول پاکستان نے میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز بھجوا دیا ہے جس کو آئی ایم ایف کی طرف سے منظور ہونے کے بعد اسٹاف لیول معاہدہ ہوجائے گا۔ اس وقت پاکستان نے بجٹ فریم ورک کرلیا ہے۔

'اصل مسئلہ معیشت نہیں سیاسی عدم استحکام ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:17 0:00


مہتاب حیدر کے مطابق اس وقت آئی ایم ایف کی تمام شرائط تسلیم کی جاچکی ہیں لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ آئی ایم ایف مزید کوئی شرط عائد نہ کردے۔

معاہدہ ہونے کے بعد معیشت پر فرق کے بارے میں مہتاب حیدر کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے اسٹاف لیول معاہدے کے بعد یقینی طور پر بہتری آئے گی۔

اُن کے بقول دو ارب ڈالر سعودی عرب ڈیپازٹس کے لیے دینے کو تیار ہے، ایک ارب ڈالر متحدہ عرب امارات نے دینا ہے۔ 700ملین ڈالر عالمی بینک کی طرف سے ملنے کا امکان ہے لیکن یہ اسی صورت میں ہے کہ پاکستان کا آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو جائے۔

XS
SM
MD
LG