رسائی کے لنکس

دریائے سندھ میں اندھی ڈالفن کی ہلاکتیں باعث تشویش


دریائے سندھ میں اندھی ڈالفن کی ہلاکتیں باعث تشویش
دریائے سندھ میں اندھی ڈالفن کی ہلاکتیں باعث تشویش

پاکستان کے دریائے سندھ میں پائی جانے والی نایاب اندھی ڈالفن کی پراسرار ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے اوراس سال اب تک مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق ساحلی علاقوں میں خصوصاً ماہی گیروں کو 29 مچھلیاں مردہ حالت میں مل چکی ہیں۔

سکھر میں جنگلی تحفظ کے سرکاری ادارے کے ایک اعلٰی عہدے دار نے بتایا ہے کہ تازہ ترین واقعہ ہفتہ کو پیش آیا جب سکھر بیراج کے گیٹ پر ایک اندھی ڈالفن مردہ حالت میں ملی جس کا وزن 60 کلو گرام اور لمبائی پانچ فٹ تین انچ تھی۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اس مادہ ڈالفن کی موت پنو عاقل اور سکھر کے درمیان ایک ہفتہ قبل ہوئی تھی لیکن سکھر بیراج کے گیٹ پر اُس کی لاش دیر سے پہنچنے کی وجہ دریا میں پانی کے بہاؤ کی کم رفتار ہے۔

جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کارکن اس پیش رفت پر سخت تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ دریائے سندھ میں اندھی ڈالفن کی تعداد محض 600 سے بھی کم ہے اور اس کی نسل کا وجود پہلے ہی خطرے سے دوچار ہے۔

سرکاری عہدے داروں کا الزام ہے کہ ماہی گیر دریائے سندھ میں زیادہ سے زیادہ مچلیوں کو پکڑنے کی کوششوں میں زیریلے کیمیائی مواد کا استعمال کر رہے ہیں جو اندھی ڈالفن کی ہلاکت کی بڑی وجہ بن رہا ہے۔

دریائے سندھ میں پائی جانے والی اندھی ڈالفن کی لمبی چونچ ہوتی ہے اورایک بالغ ڈالفن کا وزن 60 سے 90 کلوگرام ہوتا ہے۔ سست رفتاری سے تیرنے والی یہ مچھلی تین فٹ گہرے پانی میں بھی زندہ رہ سکتی ہے۔

ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ کیمیائی اور دیگر آلودگی کے ساتھ ساتھ ڈیموں کی تعمیر، مچھلیاں پکڑنے کے لیے بھچائے گئے جالوں میں حادثاتی طور پر پھنس جانا، گوشت اور تیل حاصل کرنے کے لیے شکار جیسے عوامل سے اندھی ڈالفن کی نسل ختم ہونے کے قریب ہے۔

پاکستان میں اندھی ڈالفن کو بچانے کے لیے خصوصی ادارہ بھی قائم کیا گیا ہے اور ماہرین اس سلسلے میں ہنگامی اقدامات کی ضرورت پر بھی زور دیتے آئے ہیں لیکن حالیہ ہلاکتوں کے واقعات نے متعلقہ حکام کی کارکردگی کے بارے میں کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔

XS
SM
MD
LG