رسائی کے لنکس

ضرب عضب: سات ازبک جنگجو اور دو فوجی ہلاک


پیر کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق ضرب عضب نامی اس کارروائی میں شمالی وزیرستان کے میران شاہ، میر علی، دیگان، بویا اور دتہ خیل سے مشتبہ عسکریت پسندوں کا صفایا کر دیا گیا ہے۔

افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کے خلاف 15 جون سے پاکستانی فوج کی بھرپور کارروائی حکام کے بقول کامیابی سے جاری ہے۔

پیر کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق ضرب عضب نامی اس کارروائی میں شمالی وزیرستان کے میران شاہ، میر علی، دیگان، بویا اور دتہ خیل سے مشتبہ عسکریت پسندوں کا صفایا کر دیا گیا ہے۔

بیان کے مطابق میران شاہ، دتہ خیل روڈ کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کی کارروائی کے دوران سات ازبک جنگجو ہلاک ہوئے جب کہ دو فوجی بھی اس میں مارے گئے۔

پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ قبائلی ایجنسی کے مومن، گل زیارت، میران شاہ اور میر علی کے درمیان دریا خیل کے علاقوں کے علاوہ سپالگا اور دریائے ٹوچی کے جنوبی حصے میں سکیورٹی فورسز کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

تازہ بیان میں بتایا گیا کہ آپریشن کے دوران میر علی کے مضافاتی علاقے شہباز خیل سے تلاشی کی کارروائی میں 75 راکٹ، بارودی سرنگیں، کیمیائی مواد اور پروپیگنڈے پر مبنی تحریریں بھی عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں سے برآمد ہوئیں۔

ذرائع ابلاغ کی قبائلی علاقوں میں رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں پیش آنے والے واقعات کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً ناممکن ہے۔

حکام کے مطابق ڈیڑھ ماہ سے جاری اس فوجی کارروائی میں لگ بھگ چھ سو مشتبہ شدت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے جن میں غیر ملکی جنگجو بھی شامل ہیں۔

القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے اس علاقے میں عہدیداروں کے بقول عسکریت پسندوں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر اور متعدد ٹھکانے بھی تباہ کیے جا چکے ہیں۔

رواں سال کے اوائل میں نواز شریف انتظامیہ نے ملک میں قیام امن کے لیے شدت پسندوں سے مذاکرات کا ڈول ڈالا تھا لیکن یہ سلسلہ جلد ہی تعطل کا شکار ہو گیا۔

ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں آٹھ جون کو بین الاقوامی ہوائی اڈے پر شدت پسندوں کے حملے کے بعد فوج نے حکومت کی ہدایت پر شمالی وزیرستان میں کارروائی شروع کی تھی۔

اس کارروائی کی وجہ سے تقریباً چھ لاکھ لوگ شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کر کے خیبر پختونخواہ کے مختلف بندوبستی علاقوں میں عارضی طور پر قیام کرنے پر مجبور ہوئے۔

فوجی آپریشن کے کسی بھی ممکنہ ردعمل سے بچنے کے لیے ملک کے تمام بڑے شہروں اور حساس مقامات کی سکیورٹی بھی بڑھا دی گئی تھی لیکن اس کے باوجود خیبر پختونخواہ کے مرکزی شہر پشاور سمیت صوبے کے مختلف حصوں میں حالیہ ہفتوں میں تشدد کے واقعات دیکھنے میں آچکے ہیں جن میں خاص طور پر پولیس اہلکاروں پر جان لیوا بھی شامل ہیں۔

حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کارروائی جاری رکھنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہہ چکی ہے کہ عسکریت پسندوں کو ملک کے کسی بھی حصے میں چھپنے نہیں دیا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG