رسائی کے لنکس

زلزلے کے ایک سال بعد بھی آواران کے متاثرین مشکل میں


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اس ضلع کے اب بھی بیشتر افراد عارضی پناہ گاہوں میں مقیم ہیں اور ان کا شکوہ ہے کہ حکومتی دعوؤں کے باوجود ان کی مشکلات دور نہیں ہوسکی ہیں۔

پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں تباہ کن زلزلے کے ایک سال بعد بھی متاثرین کی اکثریت اپنے گھروں میں آباد نہیں ہوسکی ہے جب کہ حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ مکانات کی تعمیر کی علاوہ ان لوگوں کو دیگر سہولتیں بھی فراہم کی جارہی ہیں۔

24 ستمبر 2013ء کو آنے والے 7.7 شدت کے زلزلے میں سب سے زیادہ تباہی ضلع آواران میں ہوئی جہاں کم ازکم چارسو افراد ہلاک ہوئے اور ہزاروں مکانات منہدم ہوگئے تھے۔

اس ضلع کے اب بھی بیشتر افراد عارضی پناہ گاہوں میں مقیم ہیں اور ان کا شکوہ ہے کہ حکومتی دعوؤں کے باوجود ان کی مشکلات دور نہیں ہوسکی ہیں۔

آواران کی تحصیل جھاؤ کے باشندے رشید بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت نے لوگوں کو گھر بنانے کے لیے چیک کے ذریعے رقم ادا کی لیکن پسماندہ علاقے کے لوگوں کے لیے یہ چیک کسی بھی طرح فائدہ مند ثابت نہیں ہوئے۔

"ان لوگوں کو تو پتا ہی نہیں کہ بینک اکاؤنٹ کیا ہوتا ہے یہ چیک جو ہے کاغذ کے اس ٹکڑے سے انھیں پیسے ملیں گے بھی یا نہیں۔۔۔۔بہت سے علاقوں میں لوگوں نے گھاس پھونس اور کچھور کے خشک پتوں سے اپنے عارضی گھر بنائے ہوئے ہیں ابھی تک کچھ بھی نہیں ہوا۔"

ضلع آواران کے ڈپٹی کمشنر اور زلزلہ زدگان کی بحالی کے منصوبے کے ڈائریکٹر عزیز احمد کا کہنا تھا کہ بعض علاقوں میں چیک کیش کروانے میں لوگوں کو مشکلات پیش آرہی ہیں لیکن اس کا بھی جلد ازالہ کر دیا جائے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے مکمل طور پر تباہ ہونے والے 16 ہزار مکانوں کی دوبارہ تعمیر کا منصوبہ بنایا تھا جس میں سے سات ہزار لوگوں کو رقوم ادا کردی گئیں جب کہ آٹھ سو مکانات ابھی تعمیراتی مراحل میں ہیں۔

بلوچستان میں آنے والے اس تباہ کن زلزلے میں تربت اور گوادر بھی متاثر ہوئے تھے اور ان علاقوں میں بھی لگ بھگ ایک سو افراد ہلاک اور املاک کو بڑے پیمانے پر نقصان ہوا تھا۔

بلوچستان کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں زیر زمین ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے اکثر زلزلے آتے رہتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG