رسائی کے لنکس

پاناما لیکس: تحقیقات کے لیے ضابطہ کار کی تیاری پر ’ڈیڈ لاک‘


Palestinian cadets demonstrate their skills at a police college run by the Hamas-led interior ministry, in Khan Younis in the southern Gaza Strip.
Palestinian cadets demonstrate their skills at a police college run by the Hamas-led interior ministry, in Khan Younis in the southern Gaza Strip.

پاناما لیکس میں وزیراعظم نواز شریف کے تین بچوں، حسین، حسن اور مریم نواز کا نام سامنے آنے کے بعد حزب مخالف کی جماعتوں کی جانب سے حکومت کو ہدف تنقید بنایا گیا، احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے اور تحقیقات کے مطالبات بھی۔

پاکستان میں وزیراعظم کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کی معلومات سامنے آنے کے بعد حکومت اور حزب مخالف کے مابین اس کی تحقیقات کے لیے مجوزہ کمیشن کے ضابطہ کار پر تاحال مشاورت جاری ہے اور اس سلسلے میں بنائی جانے والی پارلیمانی کمیٹی بھی فی الوقت کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہے۔

حکومت اور متحدہ حزب مخالف کے چھ، چھ ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی کے جمعہ کو ہونے والے اجلاس میں بھی کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی اور سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق حکومتی ارکان نے حزب مخالف کے 15 نقاط کو من و عن تسلیم نہیں کیا ہے اور اس پر مشاورت کی جا رہی ہے۔

اجلاس کے بعد کمیٹی میں شامل حزب مخالف کے رکن سینیٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ اپوزیشن اپنے 15 نقاط پر قائم ہے لیکن اگر حکومت چاہتی ہے تو وہ اس میں مزید اضافہ کر سکتی ہے۔

کمیٹی کے ایک اور رکن شاہ محمود قریشی کا اصرار تھا کہ اس معاملے پر حکومت کی سنجیدگی از حد ضروری ہے اور حزب مخالف اپنے موقف کو تبدیل نہیں کرے گی۔

اعتزاز احسن نے واضح کیا کہ حزب مخالف کی جماعتیں پاناما لیکس کے حوالے سے وزیراعظم سے تحقیقات کے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوئیں۔

ان کے بقول حزب مخالف کی طرف سے تجویز کردہ ضابطہ کار کے تحت جس شخص کا نام پاناما لیکس میں شامل ہے، اُس کے والدین، بچوں اور پوتے پوتیوں سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔

اُدھر حکومت نے پارلیمانی کمیٹی میں شامل وزیر دفاع خواجہ آصف کا نام واپس لے کر اُن کی جگہ وزیر قانون زاہد حامد کا نام شامل کیا ہے۔

زاہد حامد حکومت کی طرف سے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے ضابطہ کار تجویز کرنے میں شامل رہے ہیں۔

پاناما لیکس میں وزیراعظم نواز شریف کے تین بچوں، حسین، حسن اور مریم نواز کا نام سامنے آنے کے بعد حزب مخالف کی جماعتوں کی جانب سے حکومت کو ہدف تنقید بنایا گیا، احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے اور تحقیقات کے مطالبات بھی۔

وزیراعظم نواز شریف نے حزب مخالف کی جماعتوں کے مطالبے پر اس معاملے کی عدالتی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو کمیشن بنانے کے لیے خط بھی لکھا تھا۔

لیکن عدالت عظمٰی کی طرف سے وزارت قانون کو لکھے گئے جوابی خط میں کہا گیا کہ تحقیقات کے لیے حکومت نے جو ضابطہ کار سپریم کورٹ کو بھیجا اُس کے تحت تحقیقات میں کئی سال لگ سکتے ہیں، اس لیے عدالت کو اُن شخصیات اور کمپنیوں کی فہرست اور کوائف فراہم کیے جائیں جن کے خلاف تحقیقات ہونی ہیں۔

اس بنا پر اب حکومت اور حزب مخالف کی جماعتیں تحقیقات کے لیے متفقہ ضابطہ کار کی تیاری کے لیے مشاورت میں مصروف ہیں۔

XS
SM
MD
LG