پشاور —
پشاور ہائی کورٹ نے منگل کو ایک درخواست کی سماعت کے دوران کہا کہ کسی بھی فرد یا سیاسی جماعت کو صوبہ خیبرپختونخواہ کے راستے افغانستان جانے والے سامان کے ٹرکوں کو روکنے یا ان کی تلاشی لینے کی اجازت نہیں اور ایسا کرنا غیر قانونی ہے۔
ایک مقامی تاجر لعل خان نے عدالت عالیہ میں درخواست دائر کی تھی کہ صوبے کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کے کارکن افغانستان جانے والے ٹرکوں کو روک کر ان کے کاغذات چیک کرتے ہیں جس سے ڈرائیور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
سماعت کی تفصیلات بتاتے ہوئے لعل خان کے وکیل شاہنواز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عدالت نے ایسے کسی بھی اقدام کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔
’’عدالت نے کہا کہ کوئی بھی سویلین یا پھر سیاسی جماعت اس طرح ٹرکوں کو نہیں روک سکتی۔ ابھی فیصلہ نہیں آیا لیکن درخواست پر سماعت شروع ہو گئی ہے۔‘‘
سماعت میں ایڈووکیٹ جنرل نے دو رکنی بینچ کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے اس ضمن میں کارروائی کرتے ہوئے کچھ لوگوں کو گرفتار بھی کیا۔
پاکستان تحریک انصاف نے گزشتہ سال نومبر میں پاکستانی علاقوں میں ڈرون حملوں کے خلاف احتجاجاً افغانستان میں نیٹو افواج کے لیے سامان رسد لے جانے والے ٹرکوں کو دھرنا دے کر روک دیا تھا۔
اس دوران ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ کارکن یہ معلوم کرنے کے لیے کہ ٹرک میں موجود سامان نیٹو افواج کے لیے تو نہیں، ٹرکوں کے کاغذات بھی چیک کرتے رہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اس دھرنے کا اعلان کرتے ہوئے بھی کہا تھا کہ اس میں صوبائی حکومت شامل نہیں ہوگی بلکہ ان کی سیاسی جماعت کے کارکنان دھرنے دے کر نیٹو سپلائی کو معطل رکھیں گے۔
منگل کو پشاور ہائی کورٹ کی سماعت کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے فوری ردعمل میں کہا گیا کہ جماعت کی اعلیٰ سطحی کمیٹی بدھ کو اس بارے میں مشاورت کے بعد کوئی بیان جاری کرے گی۔
افغانستان میں تعینات امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کے لیے سامان رسد کا ایک بڑا حصہ پاکستان کے دو زمینی راستوں سے گزرتا ہے۔ اس کے لیے خیبر پختونخواہ سے ملحقہ طورخم اور بلوچستان میں چمن کی سرحدی گزرگاہ استعمال کی جاتی ہے۔
تحریک انصاف کی طرف سے نیٹو سپلائی کے بندش کے لیے دیے جانے والے دھرنوں پر مرکزی حکومت سمیت متعدد سیاسی جماعتیں یہ کہہ کر تنقید کرتی رہی ہیں کہ یہ ڈرون حملے رکوانے کے لیے درست انداز احتجاج نہیں۔
ایک مقامی تاجر لعل خان نے عدالت عالیہ میں درخواست دائر کی تھی کہ صوبے کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کے کارکن افغانستان جانے والے ٹرکوں کو روک کر ان کے کاغذات چیک کرتے ہیں جس سے ڈرائیور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
سماعت کی تفصیلات بتاتے ہوئے لعل خان کے وکیل شاہنواز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عدالت نے ایسے کسی بھی اقدام کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔
’’عدالت نے کہا کہ کوئی بھی سویلین یا پھر سیاسی جماعت اس طرح ٹرکوں کو نہیں روک سکتی۔ ابھی فیصلہ نہیں آیا لیکن درخواست پر سماعت شروع ہو گئی ہے۔‘‘
سماعت میں ایڈووکیٹ جنرل نے دو رکنی بینچ کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے اس ضمن میں کارروائی کرتے ہوئے کچھ لوگوں کو گرفتار بھی کیا۔
پاکستان تحریک انصاف نے گزشتہ سال نومبر میں پاکستانی علاقوں میں ڈرون حملوں کے خلاف احتجاجاً افغانستان میں نیٹو افواج کے لیے سامان رسد لے جانے والے ٹرکوں کو دھرنا دے کر روک دیا تھا۔
اس دوران ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ کارکن یہ معلوم کرنے کے لیے کہ ٹرک میں موجود سامان نیٹو افواج کے لیے تو نہیں، ٹرکوں کے کاغذات بھی چیک کرتے رہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اس دھرنے کا اعلان کرتے ہوئے بھی کہا تھا کہ اس میں صوبائی حکومت شامل نہیں ہوگی بلکہ ان کی سیاسی جماعت کے کارکنان دھرنے دے کر نیٹو سپلائی کو معطل رکھیں گے۔
منگل کو پشاور ہائی کورٹ کی سماعت کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے فوری ردعمل میں کہا گیا کہ جماعت کی اعلیٰ سطحی کمیٹی بدھ کو اس بارے میں مشاورت کے بعد کوئی بیان جاری کرے گی۔
افغانستان میں تعینات امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کے لیے سامان رسد کا ایک بڑا حصہ پاکستان کے دو زمینی راستوں سے گزرتا ہے۔ اس کے لیے خیبر پختونخواہ سے ملحقہ طورخم اور بلوچستان میں چمن کی سرحدی گزرگاہ استعمال کی جاتی ہے۔
تحریک انصاف کی طرف سے نیٹو سپلائی کے بندش کے لیے دیے جانے والے دھرنوں پر مرکزی حکومت سمیت متعدد سیاسی جماعتیں یہ کہہ کر تنقید کرتی رہی ہیں کہ یہ ڈرون حملے رکوانے کے لیے درست انداز احتجاج نہیں۔