رسائی کے لنکس

سکیورٹی دینا حکومت کی ذمہ داری ہے: ترجمان باچا خان یونیورسٹی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

باچا خان یونیورسٹی کے ترجمان سعید خلیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ تعلیمی اداروں کے لیے مکمل اور مربوط سکیورٹی انتظامات حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن اس ضمن میں موثر حکمت عملی کا فقدان پایا جاتا ہے۔

چارسدہ میں باچاخان یونیورسٹی پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے حقائق معلوم کرنے کے لیے بنائی گئی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں مبینہ طور پر یونیورسٹی انتظامیہ کو غفلت کا مرتکب ٹھہرایا ہے تاہم یونیورسٹی نے اس نتیجے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔

20 جنوری کو دہشت گردوں نے باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کر کے طلبا اور اساتذہ سمیت 21 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا جب کہ سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں چاروں دہشت گرد ہلاک ہو گئے تھے۔

کمیٹی میں پشاور کے کمشنر، مردان کے ریجنل پولیس افسر اور اعلیٰ تعلیم کے محکمے کے اسپیشل سیکرٹری شامل تھے جن کی مرتب کردہ رپورٹ کے کچھ حصے مقامی ذرائع ابلاغ میں نشر اور شائع ہوئے جن میں یونیورسٹی کے حفاظتی عملے کا غیر تربیت یافتہ ہونا، ضروری حفاظتی اقدامات اور رابطوں کا فقدان اور سی سی ٹی وی کیمروں کے غیر موثر ہونے کا بتایا گیا۔

اس میں کہا گیا کہ سکیورٹی سے متعلق ہدایات جاری کیے جانے کے باوجود "یونیورسٹی کے منتظمین ہر سطح پر طلبا اور اپنے ملازمین کے تحفظ میں ناکام رہے۔"

شائع شدہ اطلاعات کے مطابق اس میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور سکیورٹی انچارج کو منصب سے ہٹانے کی سفارش بھی کی گئی۔

تاہم باچا خان یونیورسٹی کے ترجمان سعید خلیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ تعلیمی اداروں کے لیے مکمل اور مربوط سکیورٹی انتظامات حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن اس ضمن میں موثر حکمت عملی کا فقدان پایا جاتا ہے۔

"پولیس اور فوج کے آنے سے آدھا گھنٹہ پہلے تک فرشتوں نے تو دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کیا بلکہ یونیورسٹی کے محافظوں نے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا جو سب کو پتا ہے۔۔۔سکیورٹی گارڈز کے پاس تو اس نوعیت کی تربیت نہیں ہوتی کہ وہ جدید اسلحے اور بموں سے لیس دہشت گردوں کا مقابلہ اپنی بندوق سے کر سکیں یہ (تربیت) تو پولیس کے پاس بھی نہیں ہوتی صرف فوج اس کا مقابلہ کر سکتی ہے جو کہ اس نے کیا۔"

ان کا کہنا تھا کہ یہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ موثر اقدام کرے۔

لیکن باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد صوبائی عہدیداروں کی طرف سے یہ بیانات سامنے آئے تھے کہ حکومت سکیورٹی کو مزید بہتر بنانے کے لیے مختلف اقدام تو کر رہی ہے لیکن صوبے کے 64 ہزار تعلیمی اداروں میں سے ہر ایک کو پولیس اہلکار فراہم کرنا اس لیے ممکن نہیں کیونکہ صوبے میں پولیس کی نفری 50 سے 60 ہزار کے درمیان ہے۔

ملک میں تعلیمی اداروں کی سکیورٹی سے متعلق خدشات میں دسمبر 2014ء کے بعد اس وقت اضافہ ہوا تھا جب طالبان دہشت گردوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کر کے 120 سے زائد بچوں سمیت 150 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد سے ملک بھر میں ایک بار پھر اسکولوں کی سکیورٹی کو سخت کرنے کے اقدام پر زور دیا جا رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG