رسائی کے لنکس

پشاور میں سکیورٹی ہائی الرٹ، قبائلی علاقے میں تین اہلکار ہلاک


مرکزی علاقے کے علاوہ حساس علاقوں کو جانے والے راستوں پر سکیورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کی گئی تھی جب کہ وسطی علاقوں اور بازاروں میں گاڑیوں کا داخلہ ممنوع رہا۔

پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبرپختونخواہ خصوصاً اس کے دارالحکومت پشاور میں حالیہ دنوں میں تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ان واقعات میں اقلیتوں کی عبادت گاہ پر خودکش بم حملوں کے علاوہ سرکاری ملازمین اور شہر کے ایک مصروف بازار میں بم دھماکے شامل ہیں جن میں لگ بھگ 150 سے زائد افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہوئے۔

ان میں سے دو ہلاکت خیز واقعات مسلسل چھٹی کے روز یعنی اتوار کو ہوئے اور اسی بنا پر اتوار کو دہشت گردی کے کسی ممکنہ خطرے کے پیش نظر پشاور میں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے۔

مرکزی علاقے کے علاوہ حساس علاقوں کو جانے والے راستوں پر سکیورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کی گئی تھی جب کہ وسطی علاقوں اور بازاروں میں گاڑیوں کا داخلہ ممنوع رہا۔

پشاور پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نجیب الرحمن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں اور بازاروں کی سکیورٹی بھی بڑھا دی گئی اور مختلف ناکوں پر ہر گاڑی کو تلاشی کے بعد جانے کی اجازت دی جارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پشاور اور اس سے ملحقہ علاقوں میں تلاشی کی کارروائیوں کے دوران متعدد مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا جب کہ گزشتہ دنوں میں ہونے والے پرتشدد واقعات کی تحقیقات میں پیش رفت بھی ہوئی ہے۔

صوبے سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں بھی حالیہ مہینوں کے دوران تشدد کے واقعات تواتر سے ہوتے آرہے ہیں۔

ایک تازہ واقعے میں اتوار کی صبح بنوں کو شمالی وزیرستان سے ملانے والے علاقے بکا خیل میں ایک فوجی قافلے پر شدت پسندوں نے دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ کیا۔ دھماکے میں تین اہلکار ہلاک اور آٹھ زخمی ہوگئے۔

شدت پسند پہلے بھی ان علاقوں میں سکیورٹی فورسز کے قافلوں کو نشانہ بناتے آئے ہیں۔
XS
SM
MD
LG