رسائی کے لنکس

اعتراضات و تحفظات کے باوجود اساتذہ کو اسلحے کی تربیت جاری


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پولیس کے ایک سینیئر عہدیدار میاں محمد سعید نے صحافیوں کو بتایا کہ تربیت کا یہ سلسلہ آئندہ آنے والے دنوں میں بھی جاری رہے گا اور نجی تعلیمی اداروں کے اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

پاکستان کو درپیش غیر معمولی صورت حال کی غمازی اس بات سے ہوتی ہے کہ اب ملک کے شمالی مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں اساتذہ کو درس و تدریس کے علاوہ تعلیمی اداروں کی حفاظت میں بھی ہاتھ بٹانا ہو گا۔

گزشتہ ماہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد جہاں تعلیمی اداروں کی سکیورٹی میں اضافہ کیا گیا وہیں اساتذہ کو حفاظتی اقدامات کے تحت اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت فراہم کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

اگرچہ اس طرح کے اقدامات دنیا کے کئی دیگر ممالک میں بھی دیکھنے میں آئے لیکن پاکستان میں اساتذہ کو اسلحے کی تربیت فراہم کرنے پر کئی حلقوں بشمول شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد بھی تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔

جب کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی اس سلسلے میں مختلف نقطہ نظر رکھنے والوں کے درمیان بحث جاری ہے۔

لیکن حکام یہ کہہ کر اساتذہ کو اسلحے کی تربیت دینے کا دفاع کرتے ہیں کہ اس سے کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے میں سکیورٹی فورسز کی مدد ہو گی۔

پشاور میں فرنٹیئر کالج برائے خواتین کی نو اساتذہ بدھ کو تربیت کے دوسرے روز بھی پولیس لائنز میں موجود تھیں جنہیں پولیس اہلکار اسلحے کے استعمال سے متعلق آگاہی اور مشق فراہم کرتے رہے۔

پولیس کے ایک سینیئر عہدیدار میاں محمد سعید نے صحافیوں کو بتایا کہ تربیت کا یہ سلسلہ آئندہ آنے والے دنوں میں بھی جاری رہے گا اور نجی تعلیمی اداروں کے اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

"تقریباً تین دن کا کورس ہوا کرے گا اس میں ہم جو ہتھیار ہیں ان کے کھولنے اور جوڑنے کے متعلق، اس کے استعمال کے متعلق پریکٹس کرائیں گے۔۔۔ زیادہ سے زیادہ دس دس کا بیچ ہو گا۔ یہ کورس ہم مسلسل جاری رکھیں گے۔"

تربیت حاصل کرنے والی پروفیسر درشہوار کہتی ہیں کہ ماضی میں طلبا کو شہری دفاع کی تربیت فراہم کی جاتی تھی جو کہ ان کے اپنے تحفظ کے لیے بھی بہت اہم ہوا کرتی تھی جس کا سلسلہ دوبارہ تعلیمی اداروں میں شروع کیا جانا چاہیئے۔

"یہاں تو پوری اسٹیٹ اس وقت (دہشت گردی کا) مقابلہ کر رہی ہے اور سارے مل کر کر رہے ہیں۔ ہم تو بس آٹے میں نمک کے برابر والی حیثیت ہے ہماری اس شمولیت میں لیکن اپنی ہماری جہاں تک کوشش ہے ہم ہر طریقے سے بچوں کو تحفظ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ طالب علموں کی یہ نسل ہے جس نے آگے چلنا ہے تو ابھی ہم ان کے لیے کوشش کر رہے ہیں اور ان کو خود اپنا تحفظ کرنا آنا چاہیئے جو ان کے لیے بہت ضروری ہے۔"

16 دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہوئے دہشت گرد حملے میں 134 بچوں سمیت 150 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور اسے ملکی تاریخ کا بدترین دہشت گرد حملہ قرار دیا جارہا تھا۔ خاص طور پر بچوں کو نشانہ بنائے جانے پر پورے ملک میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

اس واقعے کے بعد سے اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں نہ صرف بیرونی دیواروں کو اونچا کیا گیا بلکہ یہاں مسلح گارڈز کی تعیناتی کے علاوہ اسکولوں کے قریب پولیس کے گشت میں بھی اضافہ کیا گیا۔

XS
SM
MD
LG