رسائی کے لنکس

کیا حکومت اور مسلم لیگ نون میں غیر اعلانیہ ڈیل ہو گئی ہے؟


پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف، فائل فوٹو
پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف، فائل فوٹو

پاکستان میں مسلم لیگ (ن) نے قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی جگہ رانا تنویر کو پی اے سی کا چیئرمین نامزد کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خواجہ آصف کو بھی قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر مقرر کیا گیا ہے۔ شہباز شریف اس وقت لندن میں ہیں اور ان کے بھائی اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے لندن علاج کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت اور ن لیگ کے درمیان غیر اعلانیہ مفاہمت نظر آ رہی ہے۔

قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) نے اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی جگہ سابق وفاقی وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نامزد کرنے کے اپنے فیصلے سے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو آگاہ کر دیا ہے۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ میثاق جمہوریت کے مطابق اصول اپنایا گیا تھا کہ اپوزیشن کی طرف سے پی اے سی کا چیئرمین بنایا جائے گا، اس معاملے پر اپوزیشن مل کر فیصلہ کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ پی اے سی کا چیئرمین بنانے کی ابھی تجویز ہے جو مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کی طرف سے دی گئی ہے۔ اس معاملے پر ہماری پاکستان پیپلز پارٹی سے بھی بات ہوئی ہے اور مشترکہ طور پر ہی پی اے سی کا چیئرمین لایا جائے گا۔

شاہد خاقان عباسی سے جب ان کے اپوزیشن لیڈر بننے کی افواہیوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ نیا اپوزیشن لیڈر بنانے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اس وقت لندن میں ہیں۔ انہوں نے پروگرام کے مطابق 7 مئی کو واپس آنا تھا۔ تاہم اب بتایا جا رہا ہے کہ ان کے لندن کے قیام میں توسیع ہو گئی ہے اور وہ 8 اور 12 مئی کو اپنے ڈاکٹروں کے ساتھ مل رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کہتی ہیں کہ اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی کی خبریں بے بنیاد اور افواہیں ہیں۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف ہی ہیں۔ متحدہ اپوزیشن ان کی قیادت میں حکومتی نااہلی اور نالائقی کو اُجاگر کرنے میں اپنا بھرپور کردار جاری رکھے گی۔ شہباز شریف واپس نہیں آئیں گے یہ افواہ بعض لوگوں کی خواہش ناتمام ہے۔

دوسری جانب حکومتی ارکان دعوے کر رہے ہیں کہ شہباز شریف واپس نہیں آئیں گے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومتی ارکان کی طرف سے مسلم لیگ ن کے ساتھ کسی قسم کی ڈیل کی سختی سے تردید کی جا رہی ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی نعیم الحق نے کسی بھی قسم کی ڈیل کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہباز شریف کی بطور چیئرمین پی اے سی استعفے کی وجوہات کا علم نہیں۔ ہم شروع دن سے چاہتے تھے کہ شہباز شریف چیئرمین پی اے سی نہ بنیں۔ تاہم اس معاملے پر مشاورت کے بعد ردعمل دیں گے۔

نعیم الحق نے واضح الفاظ میں کہا کہ کسی قسم کی کوئی ڈیل، کوئی این آر او نہیں ہو گا۔ جس نے بھی پاکستان کی دولت کو لوٹا ہے، تحریک انصاف کی حکومت میں اس کو جواب دینا ہو گا۔ شہباز شریف عدالت کے فیصلے کے بعد ملک سے باہر گئے ہیں۔ عدالت ضروری سمجھے گی تو انہیں واپس بلا لے گی۔

حالیہ دنوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے جارحانہ حکمت عملی دیکھنے میں آ رہی ہے، جس کے مقابلے میں پاکستان مسلم لیگ ن کا ردعمل عمومی طور پر جارحانہ نہیں ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اپوزیشن کرنے کے لیے بہت سی قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ن لیگ کے اندر ایک خلا موجود تھا۔ اسے کسی طرح سے پورا کرنا تھا اور یہ کسی طرح پورا نہیں ہو رہا تھا، ملک میں نہ شہباز شریف تھے اور نہ ہی نواز شریف، لہذا پارٹی کے اندر موجود اعتراضات دور کرنے کے لیے یہ فیصلے کیے گئے ہیں۔

نواز شریف کے بیرون ملک جانے کے حوالے سے سہیل وڑائچ نے کہا کہ اس کی اجازت عدالت نے دینی ہے۔ اس وقت ن لیگ یہ سمجھتی ہے کہ آئندہ انتخابات تک کوئی بڑی ایکٹیویٹی نہیں ہے، لہذا ہمیں زیادہ جارحانہ ردعمل دینے کی ضرورت نہیں البتہ پارٹی کے معاملات چلانے لیے قیادت کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت حکومت تبدیل نہیں ہو رہی اور نہ ہی کوئی تحریک چل رہی ہے۔ اسی وجہ سے اس وقت ن لیگ خاموش نظر آ رہی ہے۔ البتہ پاکستان پیپلز پارٹی کا معاملہ مختلف ہے۔ بلاول بھٹو کو پنجاب میں اپنی پارٹی کو دوبارہ فعال کرنا ہے اور عمران خان کے مقابلے میں خود کو ایک بڑی جماعت کا قائد ثابت کرنا ہے، لہذا وہ اس حوالے سے اقدام کر رہے ہیں۔ لیکن ن لیگ کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہے۔ انہیں معمول کے مطابق اپنی پارٹی کو چلانا ہے جس کے لیے پی اے سی اور پارلیمانی لیڈر کی تبدیلی کی گئی ہے۔

ڈیل یا این آر او ہو رہا ہے یا نہیں، اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان صرف زبانی باتیں جاری ہیں۔ لیکن موجودہ صورت حال میں آئندہ انتخابات تک یا کسی بڑی سیاسی تحریک سے پہلے تک ن لیگ خود کو جارحانہ سیاست سے دور کرتے ہوئے خاموش سیاست کرتی نظر آ رہی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر حکومت پر تنقید نہ کی گئی اور صورت حال کو جوں کا توں رکھا گیا تو ن لیگ کو سیاسی طور پر فائدہ مل سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG