رسائی کے لنکس

نئی حکومت کو کن معاشی چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں وزیراعظمِ عمران خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سیاسی منظر نامے پر چھائی بے یقینی میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے لیکن ملک کے معاشی مستقبل کے بارے میں اب بھی کئی سوالوں کے جواب واضح نہیں ہیں۔

ہفتہ اور اتوار پاکستان میں سیاسی ماحول کے لحاظ سے ہنگامہ خیز دن تھے۔ ہفتے کی صبح دس بجے شروع ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس کئی مرتبہ ملتوی ہونے کے بعداتوار کو ختم ہوا۔ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کے اس طویل ترین اجلاس میں عمران خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی پیش کردہ عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ ہوئی۔ جس میں اپوزیشن کو کامیابی ملی اور تحریکِ انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔اب قومی اسمبلی میں پیر کو نئے قائدایوان کا انتخاب ہونے جا رہا ہے جہاں متحدہ اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف ہیں اور تحریکِ انصاف نے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی کا نام پیش کیا ہے۔

پاکستان میں تحریک انصاف نے ساڑھے تین سال سے زائد عرصہ اقتدار میں گزارا۔ اس دوران جہاں اسے سیاست، خارجہ امور اور داخلی سطح پر مختلف چیلنجز کا سامنا رہا وہیں معیشت کے اہم میدان میں بھی اسے کٹھن حالات سے گزرنا پڑا۔

اگرچہ عمران خان کی حکومت ختم ہوچکی ہے لیکن ماہرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ملک کو درپیش مشکلات کا توڑ نکالنے کے لیے نئی حکومت کے لیے سخت چیلنجز اپنی جگہ برقرار ہیں۔

معاشی تجزیہ کار اور اقبال اسماعیل سیکیورٹیز میں ہیڈ آف ریسرچ فہد رؤف کہتے ہیں کہ سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ پی ٹی آئی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی کی قیمتیں کم کرنے کے لیے گزشتہ ماہ جو سبسڈی پیکج دیا تھا، کیا آنے والی حکومت یہ سبسڈی جاری رکھ پائے گی؟۔

انہوں نے رواں ہفتے ہونے والی پیش رفت اور سپریم کورٹ کے جمعرات کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس فیصلے سے کسی حد تک سیاسی بے یقینی کا ضرور خاتمہ ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے ـ(آئی ایم ایف)جیسے ادارے بھی قرض کی اگلی قسط جاری کرنے کے لیے نئی حکومت سے ہی بات چیت کے انتظار میں ہیں۔

پی ٹی آئی حکومت کی دی گئی سبسڈی پر ان کا کہنا تھا کہ اگلی حکومت اسے جاری رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی کیوں کہ ایسا کرنا آئی ایم ایف کے پروگرام کے برخلاف ہوگا اور ملک کے موجودہ معاشی حالات میں ایسا کرنا ممکن نظر نہیں آتا ہے۔ ان کے بقول آئی ایم ایف پروگرام کے تحت پاکستان کا قرضہ انہی حالات کی وجہ سے رکا ہوا ہےجب کہ بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کی شرح مزید بڑھنے کے امکان ہے۔

البتہ ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے حکومت غذائی اشیا کی قیمتیں کسی حد تک مستحکم رکھنے کے لیے گندم اور فرٹیلائزرز کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے اقدامات ضرور کرسکتی ہے۔

ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال اور اگلے برس پاکستان کو اب تک کے تخمینوں کے مطابق لگ بھگ30 ارب ڈالرز کی رقم واپس کرنی ہے۔

تاہم فہد رؤف کا خیال ہے کہ اگر خطے میں کوئی بڑی جیو پولیٹیکل صورتِ حال تبدیل نہ ہوئی تو آئی ایم ایف و دیگر مالیاتی ادارے اور ممالک پاکستان کے واجب الادا قرضوں کو ری شیڈول کردیں گے کیوں کہ قرض دہندگان کے لیے قرض پر سود کمانا بھی اہم ہوتا ہے اور جیو پولیٹیکس قرضوں کی واپسی کے معاملات میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔

واضح رہے کہ چین نے حال ہی میں پاکستان پر واجب الادا قرض کی ادائیگی مؤخر کی ہے۔ 30 مارچ کو وزارتِ خزانہ کے بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نے مارچ میں چین کو چار ارب 30 کروڑ ڈالرز کی ادائیگی کرنا تھی۔ جس میں سے پاکستان نے دو ارب ڈالرز کا قرضہ رول اوور یعنی مؤخر کیا ہے جب کہ دو ارب تیس کروڑڈالرز کی ادائیگی مؤخر کرنے کا عمل جاری ہے۔ یہ سہولت ملک کی ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے اور بجٹ سپورٹ میں استعمال کی جائے گی۔

سیاسی بے یقینی کی فضا میں پاکستانی کیا سوچ رہے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:14 0:00

روپے کی قدر میں گراوٹ سے ملکی معیشت کو درپیش خطرات

ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت کو اس وقت روپے کی گرتی ہوئی قدر سے بھی ایک اور اہم خطرہ لاحق ہے۔ ایک جانب امریکی ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب پاکستان کے غیرملکی زرِمبادلہ کے ذخائر کچھ ہفتوں میں پانچ ارب ڈالرز کے قریب گرچکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ لوگ ڈالرز خریدنے کے لیے بےچین تھے۔ ماہرین ملک میں حالیہ سیاسی بے یقینی کی فضا کو روپے کی قدر میں کمی کی تیسری بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کی سیاسی فضا میں کچھ بہتری آئی ہے لیکن بین الاقوامی مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ سے پاکستانی کرنسی سمیت دنیا بھر کی کمزور اور طاقتور کرنسیز کی گراوٹ کا عمل کسی حد تک جاری رہے گا۔

سیاسی بے یقینی کی فضا میں پاکستانی کیا سوچ رہے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:14 0:00

تجارتی خسارہ اور بیرونی ادائیگیوں کا عدم توازن

پاکستان کے تجارتی خسارے میں بھی مسلسل اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران پاکستان کو ریکارڈ 35 ارب ڈالرز کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ پاکستان نے نو ماہ میں 23 اعشاریہ 29 ارب ڈالرز کی برآمدات کیں جب کہ اس کے مقابلے میں درآمدات 58 ارب ڈالرز سے تجاوز کرچکی ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس اسی عرصے میں تجارتی خسارہ 20 ارب ڈالرز تھا۔ تاہم مارچ میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن میں رواں برس کے آٹھ ماہ میں اب تک 12 ارب ڈالرز کے خسارےکا سامنا ہے۔

فہد رؤف کا کہنا ہے کہ ادائیگیوں میں توازن کی بڑی وجہ عالمی مارکیٹ میں اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہے ۔ ان کے بقول اسٹیٹ بینک نے جمعرات کو پُرتعیش اشیا پر کیش مارجن بڑھایا ہے جب کہ اکنامک ری فنانس اسکیم پر شرح سود بھی بڑھائی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شرح سود میں اضافے سے ملکی طلب میں بھی کمی واقع ہوگی۔ جس سے درآمدی بل میں کسی حد تک کمی آنے کی توقع ہے اور جاری کھاتوں کا خسارہ اس حد تک ہوجانے کا امکان ہے جہاں اسے مینج کیا جاسکے گا۔

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ معیشت کودرست سمت پر استوار کرنے اور لوگوں کو مہنگائی سے نجات دلانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آتے ہی شرح سود میں 2.5 فی صد کے بڑے اضافے کے باوجود اسٹاک مارکیٹ میں تیزی دیکھی گئی ہے اور روپے کی قدر میں بھی بہتری آئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہونے کے بعد آئندہ بجٹ تک رہی اور مالی گنجائش بھی ہوئی تو تنخواہ دار طبقے کو انکم ٹیکس کی مد میں رعایت دی جائے گی۔

نئی حکومت اورمیثاقِ معیشت

پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے بعض رہنما میثاقِ جمہوریت کی طرز پر ایوان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ میثاقِ معیشت پر بھی زور دیتے آئے ہیں۔ لیکن اب تک اس حوالے سے عملی پیش رفت نہیں نظر آئی ہے۔

معاشی ماہر اور سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کی معیشت سے متعلق حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب میں کہا گیا ہے کہ ملک کو موجودہ معاشی صورتِ حال سے نکالنے کے لیے سیاسی اتفاق رائے اور سول سوسائٹی کی حمایت سے معیشت کی بہتری کے لیے ’چارٹر آف اکانومی‘ کی ضرورت ہے۔

ان کے خیال میں ایسے چارٹر میں اصلاحات کی نشاندہی کی جائے۔ معاشی ترقی کے لیے پالیسیاں بنائی جائیں۔ جن سے عدم مساوات کا خاتمہ، روزگار کے مواقع، غربت ختم اور غذائی سیکیورٹی کی صورتِ حال میں بہتری کے ساتھ انسانی ترقی کو فروغ دیا جاسکے۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا کے خیال میں اس بارے میں گفت و شنید، مشترکہ کوششیں اور تیز تر تبدیلی کے ذریعے پائیدار اور شمولیتی ترقی کے مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے جن معاشی مسائل سے گزر رہا ہے وہ گزشتہ حکومتوں کے دعوؤں اور وعدوں کے باوجود بھی ہر گزرتے مہینے اور سال میں مزید سنگین ہو رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں بے روزگاری کی شرح بلند جب کہ خطِ غربت سے نیچے رہنے والی آبادی 38 فی صد بتائی جاتی ہے۔

علاوہ ازیں ملک کی برآمدات میں کوئی قابلِ ذکر اضافہ نہیں ہوسکا ہے اور یہ پچھلے کئی برسوں سے 20 سے 25 ارب ڈالرز کے درمیان ہی منجمند ہے۔

دوسری جانب پاکستان کا بجٹ خسارہ اس کی مجموعی ملکی پیداوار یعنی جی ڈی پی کے سات سے نو فی صد کے درمیان بتایا جاتا ہے۔ اسی طرح جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس ادا کرنے کی شرح میں بھی کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔

ملکی آمدن سے قرضوں کی ادائیگی میں تیزی دیکھی جارہی ہے جب کہ ترقیاتی اخراجات بھی تیزی سے کم کیے گئے ہیں اورحکومتی قرضے ملکی قانون (فِسکل رسپانسیبلٹی اینڈ ڈیٹ لمیٹیشن ایکٹ) میں دی گئی حد سے کہیں زیادہ تجاوز کرچکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG