رسائی کے لنکس

نواز شریف کے مطالبات پر وزیراعظم کا مبہم بیان


نواز شریف کے مطالبات پر وزیراعظم کا مبہم بیان
نواز شریف کے مطالبات پر وزیراعظم کا مبہم بیان

وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اتوار کو مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سے ٹیلی فون پر رابطہ کرکے اُنھیں یقین دلایا ہے کہ وہ اپوزیشن جماعت کی طرف سے رواں ہفتے پیش کیے گئے مطالبات پر عمل درآمد کرنے کو تیار ہیں۔

اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں اپنی گفتگو کی تفصیل بتاتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ یہ طے ہونا باقی ہے کہ کون سے مطالبات قابل عمل ہیں۔ ”جو چیز قابل عمل ہو گی ہم کریں گے اور جو نہیں ہوگی اس پر ہم (اپوزیشن) کو قائل کرنے کی کوشش کیں گے۔“

نواز شریف نے منگل کو پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کو اپنا دس نکاتی ایجنڈا پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعظم گیلانی ہاں یا نا میں جواب دیں کہ وہ ان مطالبات کو پورا کرنے پر متفق ہیں یا نہیں۔ مطالبات میں سر فہرست پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ واپس لینا، حکمران جماعت کے بدعنوان عناصر کے خلاف عدالتی فیصلوں پر عمل درآمداور سرکاری اخراجات میں 30 فیصد کمی سر فہرست تھے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما کا کہنا تھا کہ اگر حکومت مثبت جواب دیتی ہے تو اسے تجویز کردہ اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے 45 دن کی مہلت دی جائے گی۔

تاہم وزیر اعظم نے کہا ہے کہ نواز شریف نے اُنھیں نا پہلے کوئی تین دن کا الٹی میٹم دیا تھا اور نا ہی اس وقت کوئی ڈیڈ لائن موجود ہے۔اُن کے بقول ٹیلی فون پر گفتگو میں بھی اپوزیشن رہنما نے کسی ڈیڈلائن سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔

وزیر مسلم لیگ (ن) نے یہ انتباہ بھی کر رکھا ہے کہ اگر اس کے مطالبات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا تو پیپلز پارٹی کو صوبہ پنجاب کی مخلوط حکومت سے الگ کر دیا جائے گا۔

پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں کہا ہے کہ اگر وفاقی حکومت نواز شریف کے پیش کردہ ایجنڈے پر عمل درآمد سے قاصر رہتی ہے تو پنجاب حکومت سے پیپلز پارٹی کو الگ کرنے میں ان کی جماعت کو کوئی دشواری یا چیلنج درپیش نہیں ہو گا ۔

رانا ثنا اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ 371کے ایوان میں ان کی جماعت کو 180ارکان کی براہ راست حمایت حاصل ہے اور ان کے بقول چھ مزید ارکان کی حمایت حا صل کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہو گا کیونکہ مسلم لیگ (ق) کے فارورڈ بلاک کے درجنوں ارکان ان کے کہنے کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی حمایت کرنے پر تیار بیٹھے ہیں۔

پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ دینے پر رکنیت منسوخ ہونے کے قانون کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ یہ قانون اٹھارویں ترمیم میں پاس ہوا ہے اور اس کا اطلاق اگلے انتخابات پر ہو گا جب کہ جو ضابطے موجودہ اسمبلی پر لاگو ہیں ان کے مطابق اگر فارورڈ بلاک ایوان میں اپنی اکثریت دکھا دیتاہے تو وہ جس پارٹی کے حق میں چاہے ووٹ کر سکتا ہے ۔

پیپلز پارٹی پنجاب کے جنرل سیکرٹری سمیع اللہ خان اس کو ہارس ٹریڈنگ کہتے ہیں ۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی تین بڑی جماعتیں ہیں اور کیونکہ کسی ایک کے پاس زیادہ اکثریت نہیں ہے لہذا اصول کی بات یہ ہے کہ کوئی دو جماعتیں مل کر حکومت بنائیں۔

سمیع اللہ خان نے کہا کہ ان کی جماعت خود سے پنجاب حکومت سے الگ نہیں ہو گی تاہم اگر مسلم لیگ ن کوئی قدم اٹھائے گی تو پھر ان کی قیادت حا لات دیکھ کر فیصلہ کرے گی۔

یہ تمام پیش رفت ایسے وقت ہو رہی ہے جب وفاقی حکومت پنجاب میں نئے گورنر کی نام زدگی کے مراحل طے کر رہی ہے۔

صوبے کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو اُن کی حفاظت پر معمور پنجاب پولیس کی ایلیٹ فورس کے ایک اہلکار نے منگل کو اسلام آباد میں گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔

دریں اثنا مذہبی جماعتوں کی طرف سے اتوار کو کراچی میں کیے گئے احتجاجی مظاہرے کے بارے پوچھے گئے سوال پر وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر اس تاثر کو رد کیا کہ حکومت ناموس رسالت ایکٹ میں اصلاحات کا ارادہ رکھتی ہے۔

وزیر اعظم گیلانی پہلے بھی اس حوالے سے حکومت کے موقف کی وضاحت کر چکے ہیں لیکن ناقدین کے مطابق مذہبی جماعتوں کی طرف سے چلائی جانے والی مہم کا مقصد گورنر پنجاب کے مبینہ قاتل ممتاز حسین گیلانی کی حمایت میں اضافہ کرکے اُن کے خلاف عدالتی کارروائی پر دباؤ ڈالنا ہے۔

XS
SM
MD
LG