رسائی کے لنکس

مجوزہ ترامیم کے پیکج پر اختلافات میں شدت


مجوزہ ترامیم کے پیکج پر اختلافات میں شدت
مجوزہ ترامیم کے پیکج پر اختلافات میں شدت

حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے الزام لگایا ہے کہ آئین میں مجوزہ ترامیم کے پیکج پر اتفاق رائے قائم کرنے کی کوششوں کو انھوں نے نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے نقصان پہنچایا ہے ۔

پیر کو وفاقی دارالحکومت میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آئینی کمیٹی مجوزہ عدالتی کمیشن اور صوبہ سرحد کے نام پر مسلم لیگ کے تحفظات سے شروع دن سے آگا ہ تھی لیکن اس کے باوجود وزیر قانون کی طرف سے پارلیمان کے اجلاس میں اس مسودے کو پیش کرنے کی تاریخ کااعلان کر دیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مجوزہ جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس آف پاکستان سمیت تین ججوں ، اٹارنی جنرل اور سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر پر مشتمل ہونا چاہیے ۔

لیکن نواز شریف نے کہا کہ اگر حکومت اور اسکی اتحادی جماعتیں اپنے تجویز کردہ چھ رکنی کمیشن کو ہی بہتر سمجھتی ہیں تو پھر اس کمیشن کا ساتواں رکن چیف جسٹس مقرر کریں گے۔ انھوں نے الزا م لگایا کہ موجودہ حکومت نے ان کی جماعت کے ساتھ پہلے بھی کئی معاہدے کر کے توڑے دیے ہیں ”اور ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے “ اس لیے وہ اس بات کو یقینی بنانے چاہتے ہیں کہ ایک آزاد عدلیہ کے معاملات میں آگے چل کر کوئی مداخلت نہ کرسکے۔

نواز شریف نے کہا کہ اگر جوڈیشل کمیشن اور صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی پر اختلافات دور کیے بغیر آئینی پیکج پارلیمان میں پیش کردیا جاتا تو انھیں یقین ہے کہ یہ معاملہ وہاں بھی جاکر تعطل کا شکار ہو جاتا جو زیادہ پریشانی کا باعث بنتا۔

لیکن حکمران پی پی پی کی ایک اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر زاہد خان نے کہا ہے کہ پارلیمانی آئینی کمیٹی میں موجود تمام جماعتوں بشمول مسلم لیگ ن نے آئینی ترامیم کے مسودہ پر اتفاق رائے کرنے کے بعد25 مارچ کو متفقہ دستاویز پر دستخط کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ ان کے بقول مسلم لیگ ن نے صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کا معاملہ بھی حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی اس لیے نواز شریف کا موقف ان کی سمجھ سے بالاتر ہے۔

لیکن پارلیمان کی ایک دوسری اہم اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ق کے سیکرٹری مشاہد حسین نے بھی پیر کو صوبہ سرحد کے ان ناموں کو مسترد کر دیا ہے جو عوامی نیشنل پارٹی نے تجویز کر رکھے ہیں۔

پارلیمان میں مجوزہ آئینی ترامیم کی منظوری کے لیے حکومت کو دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے لیکن مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ن کے اختلافات کو دور کیے بغیر پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے لیے ایساکرناممکن نہیں ہوگا۔

XS
SM
MD
LG