رسائی کے لنکس

کیا ڈاکٹر طاہرالقادری تنہا رہ گئے ہیں؟


لانگ مارچ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں جو اب تک تتربتر تھیں، یک زبان ہوگئی ہیں اور انہوں نے صف بندی کرلی ہے

تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کے اعلان اور دھرنے سے کوئی اور فائدہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، ایک نتیجہ یہ سامنے ضرور آیا ہے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں جو اب تک تتربتر تھیں یک زبان ہوگئی ہیں اور انہوں نے صف بندی کرلی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام ( ف )، حاصل بزنجو، محمود اچکزئی اور دیگر تمام جماعتیں دھرنے کو ’کھیل تماشہ‘ قرار دے رہی ہیں، جبکہ جس تنظیم کو خود ڈاکٹر طاہر القادری نے دھرنے میں شرکت کی دعوت دی تھی وہ بھی اس میں شرکت کرنے سے انکاری ہوگئی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سیکریٹری اطلاعات، شفقت محمود نے بدھ کی شام ایک بیان میں کہا کہ تحریک انصاف کسی غیر جمہوری عمل کا حصہ نہیں بنے گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ دھرنے میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ ایک اہم اجلاس میں کیا گیا جو بدھ کو تحریک کے سربراہ عمران خان کی زیرصدارت ہوا۔ پی ٹی آئی آئین اور جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہے اور اسے یقین ہے کہ شفاف انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی حکومت ہی اصل تبدیلی لاسکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئین کے مطابق نگراں سیٹ اپ آنا چاہئیے۔


اس سے قبل متحدہ قومی موومنٹ نے لانگ مارچ میں شرکت کرتے کرتے عین وقت پر انکار کردیا تھا۔ اپوزیشن کی اس صف بندی کے ساتھ ہی دھرنے سے انقلاب لانے کے خواہشمند ڈاکٹر طاہر القادری بظاہر تنہا ہوگئے ہیں۔ اس وقت کوئی بھی جماعت ان کے ساتھ نہیں ہے۔

آزاد خیال سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کا ساتھ نہ دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا ’چارٹر آف ڈیمانڈ‘ ناقابل یقین ہے ۔ وہ جن اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں اس پر اگر کوئی حکومت رضامند ہو بھی جائے تب بھی وہ بہت وقت طلب ہیں، جبکہ پانچ سالہ حکومتی مدت پوری ہونے میں صرف 8 یا 9ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔

اُن کا خیال ہے کہ ایسے موقع پر اپوزیشن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور وہ کبھی مزید تاخیر کو برداشت نہیں کرے گی۔ اسی لئے، اُن کے خیال میں، تمام جماعتوں نے بدھ کو یک زبان ہو کر حکومت سے انتخابات کا شیڈول جلد جاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
XS
SM
MD
LG