رسائی کے لنکس

'عدالتوں میں عوامی نمائندوں کے لیے القابات قابل قبول نہیں'


وزیراعظم شاہد خاقان عباسی (فائل فوٹو)
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی (فائل فوٹو)

حکمران جماعت مسلم لیگ ن اپنے سربراہ اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلے پر تنقید کرتی آ رہی ہے جس میں پاکستان کے چیف جسٹس کی طرف نا اہل شخص کی طرف سے انتخابی ٹکٹ جاری کرنے کے ریمارکس کے بعد شدت دیکھی جا رہی ہے۔

ہفتہ کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے حافظ آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عدلیہ کی طرف سے اپنے راہنما کے بارے میں کہے جانے والے الفاظ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ کسی طور بھی قابل قبول نہیں۔

"عدالتوں میں عوام کے نمائندوں کو کبھی مافیا کہا جاتا ہے کبھی چور کہا جاتا ہے کبھی ڈاکو کہا جاتا ہے یہ چیزیں قابل قبول نہیں ہیں۔ ہم اداروں کا احترام کرتے ہیں، اداروں کا ایک دوسرے کا احترام کرنا لازم ہے، اگر 20 کروڑ عوام کے نمائندوں کو یہ لقب دیا جائے تو یہ ہمیں قابل قبول نہیں ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ تمام آئینی اداروں کو اپنی ان حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا جن کا تعین آئین میں کیا گیا اور اس سے ہی ملک ترقی کر سکتا ہے۔

"جو فیصلے عدالتیں کرتی ہیں ان پر من و عن ان پر عملدرآمد کیا جاتا ہے چاہے عوام قبول کرے نہ کرے تاریخ قبول کرے یا نہ کرے اس پر عملدرآمد ہوتا ہے دوسری طرف جو فیصلے پاکستان کی پارلیمنٹ کرے وہ بھی قبول ہونے چاہیئں۔"

دوسری طرح سابق وزیراعظم نواز شریف نے لودھراں میں اپنے کارکنان سے خطاب میں ایک بار پھر اپنے موقف کو دہراتے ہوئے عدالتی فیصلے کو عوامی مینیڈیٹ کی توہین قرار دیا اور شرکا سے کہا کہ وہ آئندہ انتخاب میں اپنے ووٹ کے تقدس کے لیے نکلیں۔

مبصرین یہ کہتے آ رہے ہیں کہ اس طرح کی بیان بازی اداروں کے تشخص کے لیے مُضر ہے اور سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں ہی حل کیا جانا چاہیے۔

سیاسی امور کے سینیئر تجزیہ کار وجاہت مسعود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس صورتحال میں عدلیہ کی ذمہ داری زیادہ بن جاتی ہے کیونکہ قانون کا احترام سب شہریوں پر لازم ہے۔

"سیاستدانوں سمیت تمام شہری عدالت کے قانونی اختیارات کے طابع ہیں تو اگر عدالت کی طرف سے بھلے کسی بھی تناظر میں فیصلوں میں کہیں گاڈ فارد جیسے الفاظ یا اشعار یا ریمارکس میں ایسی بات کہی جائیں گی تو بات یہاں تک تو رہے گی نہیں جج صاحبان کے الفاظ مختلف سیاسی مخالفیں اٹھا لیں گے۔"

حکمران جماعت کے راہنماؤں کو موقف ہے کہ وہ عدلیہ پر نہیں عدالتی فیصلوں پر تنقید کرتے ہیں جو ان کا حق ہے اور وہ کسی طور بھی اداروں میں تصادم یا ان کے بارے میں بداعتمادی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔

XS
SM
MD
LG