رسائی کے لنکس

دھرنا اور ڈرون: حکومت پر اندرونی دباؤ ہے، لیکن فیصلےکی بنیاد امریکہ پاکستان مکالمہ ہوگا:تجزیہ کار


Bus sekolah yang membawa siswa-siswa SD Sandy Hook dari Newtown ke Monroe (3/1), masih di negara bagian Connecticut. (Reuters/Shannon Stapleton)
Bus sekolah yang membawa siswa-siswa SD Sandy Hook dari Newtown ke Monroe (3/1), masih di negara bagian Connecticut. (Reuters/Shannon Stapleton)

حسن عسکری رضوی سے سوال کیا گیا کہ کیا دھرنے کی وجہ سے ڈرون حملے رُک سکتے ہیں۔ اُن کا جواب تھا: ’ نہیں رُک سکتے‘

معروف تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری رضوی نے کہا ہے کہ دائیں بازو کی فورسز کی طرف سےدھرنا دینے کی اپنی اہمیت ہے، لیکن، اُن کے بقول، ڈرون طیاروں کے بارے میں امریکہ کی طرف سےفیصلہ پاکستان حکومت سے مکالمے کی بنیاد پر ہی ہوگا۔

اتوار کو ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ اب حکومتِ پاکستان یہ ضرور کہہ سکتی ہے کہ اُس پر اندرونی دباؤ ہے، جو اُن کے بقول، واقعی ہے۔

اُن سے سوال کیا گیا کہ کیا دھرنے کی وجہ سے ڈرون حملے رُک سکتے ہیں۔ پروفیسر رضوی کا جواب تھا: ’ نہیں رُک سکتے۔‘

’یہ ہنگامے کرلیں۔ توڑ پھوڑ کرلیں۔ تو اُس سے امریکہ کو تو فرق نہیں پڑنا۔ ۔۔ نقصان پاکستان کا ضرور ہوتا ہے۔ اِن کی کارروائی سے پاکستان کی حکومت مشکلات میں آتی ہے۔ اُس کے لیے، حکومتِ پاکستان خود ذمہ دار ہے، کیونکہ حکومت اور پاکستان فوج نے اِن لوگوں کی حوصلہ افزائی کی۔ ورنہ، یہ تحریک تو پہلےبھی موجود تھی۔ لیکن کافی حد تک محدود تھی۔‘

دھرنے کے باعث افغانستان میں تعینات نیٹو فورسز کے لیے سپلائی روک دی گئی ہے۔ اِس بارے میں سوال پر ڈاکٹر رضوی نے کہا کہ یہ دھرنا پشاور میں ہے۔ سپلائی روک دینا دانشمندی ہے کیونکہ اِن ٹرکوں پر حملہ ہوسکتا تھا، نقصان پہنچ سکتا تھا۔ ایک سکیورٹی اقدام کے طور پر ایسا کیا گیا ہے۔

دھرنا اور آئندہ کا سیاسی منظر نامہ، إِس بارے میں سوال پر اُنھوں نے کہا کہ فرق تو صرف یہی پڑے گا کہ جو اندرونی سیاست ہے اُس میں دائیاں بازو فعال نظر آئے گا۔ اُن کے بقول، یہ لوگ تیاری کر رہے ہیں جنرل الیکشن کی بھی۔ کیونکہ پچھلی دفعہ عمران خان اور جماعتِ اسلامی نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا تھا۔

’پھر بلیسفیمی کےمعاملے پرمذہبی جماعتوں میں جو نئی تنظیمیں پیدا ہوئی ہیں وہ بھی الیکشن کی تیاری کر رہی ہیں۔۔۔ اس وقت پاکستان کے اندر یہ اندرونی سیاست کا حصہ ہے۔ پالیسی کے تحت نہیں ہے۔ اگر اِس کے اثرات خارجہ پالیسی کے لیے ہیں (تو وہ الگ بات ہے۔۔۔)‘

اُنھوں نے مزید کہا کہ دائیں بازو کی جماعتیں آئندہ الیکشن کے لیےحکومت پردباؤ ڈال رہی ہیں۔

’حکومت پہلے ہی مشکلات میں پھنسی ہوئی ہے۔ بجلی کا بحران ہے، قیمتوں کا مسئلہ ہے جو اُن سے کنٹرول نہیں ہورہا ہے۔ حکومت کے کمزور اورغیرمقبول ہونے کی وجہ سے بھی یہ قوتیں زیادہ مضبوط ہو رہی ہیں۔ کیونکہ ڈرون والے معاملے پر عوامی تنقید کا سامنا ہے، اِسی وجہ سے حکومت نے بھی اِس (ڈرون کے) معاملے پرتنقید شروع کردی ہے۔ فوج نے بھی نکتہ چینی شروع کردی ہے۔‘

ملک میں کسی نئے سیاسی محاذ کے بارے میں سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ محاذ تو سامنے نہیں آسکتا، کیونکہ دائیں بازو کی قوت میں آپس میں بڑی دوریاں ہیں۔ دائیں بازو میں سب سے بڑی قوت تو ’پی ایم ایل-ن‘ ہے جو خود اپنے طور پر الیکشن لڑے گی، اور اِس دھرنے میں شامل نہیں ہے۔

تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے:



XS
SM
MD
LG