رسائی کے لنکس

پاکستان میں انتخابات سے پہلےحل طلب مسئلے


بہت سے معاملات ایسے نظر آتے ہیں جن کا انتخابات سے پہلے حل ہونا ضروری ہے: سیاسی مبصرین

پاکستان کی موجودہ اسمبلیاں صرف چھ ہفتے بعد یعنی 16مارچ کو اپنی مدت پوری کر رہی ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں نئے انتخابات میں ایک دن کی بھی تاخیر کی روادار نہیں جبکہ حکمراں جماعت بھی باربار یہی کہہ رہی ہے کہ انتخابات بروقت ہوں گے۔

لیکن، سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ زمینی حقائق پر نظر دوڑائی جائے تو انتخابات سے پہلے بہت سے معاملات ایسے نظر آتے ہیں جن کا حل ہونا ضروری ہے۔ مثلاً، امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال، الیکشن کمیشن پر اٹھتی ہوئی انگلیاں، سیاسی جماعتوں کا نگراں سیٹ اپ پر اتفاق اور اختلافات کے بغیر نئے صوبوں کی تشکیل کے معاملات۔

امن و امان کی نازک صورتحال

انتخابات سے قبل حکومت کو سب سے پہلے امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانا ہوگا۔ اس وقت امن و امان کی جو صورتحال ہے اس کا اندازہ پیر کو اسلام آباد میں وفاقی وزیر داخلہ کے دیے گئے بیان سے بھی لگایا جاسکتا ہے، جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ کراچی میں فروری کے دوران بڑے پیمانے پر بدامنی کا خطرہ ہے۔ رحمٰن ملک کے بقول، اس کی اطلاع انہیں خفیہ اداروں نے دی ہے۔

انہوں نے خفیہ اداروں کو خبردار کیا کہ وہ اپنی75 فیصد توجہ کراچی کے حالات پر مرکوز رکھیں۔ وفاقی وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ وہ آئندہ ہفتے خفیہ اداروں کا اہم اجلاس طلب کر رہے ہیں جس میں ان حالات پر قابو پانے کیلئے اقدامات پر غور کیا جائے گا۔

دوسری جانب، مبصرین کہتے ہیں کہ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بھی سیکورٹی کی صورتحال تسلی بخش نہیں اور ایسی صورتحال میں سیاسی جماعتوں کیلئے انتخابی مہم چلانا آسان نہیں ہوگا۔ اگرچہ، خیبر پختونخوا حکومت کالعدم تحریک طالبان کو باربار مذاکرات کی پیشکش کر رہی ہے اور طالبان سے بات چیت کیلئے مشترکہ حکمت عملی طے کرنے کیلئے اس نے آل پارٹیز کانفرنس بھی طلب کر رکھی ہے، تاہم دوسری جانب سے ابھی تک کوئی مثبت پیش رفت سامنے نہیں آئی۔

الیکشن کمیشن پر اٹھتی ہوئی انگلیاں

اپوزیشن جماعتیں جو کل تک الیکشن کمیشن کے غیرجانبدار اور مضبوط ہونے سے متعلق بیانات دیتے تھکتی نہیں تھیں، اُن کی آج کل کی آپس کی چپقلش اس ادارے پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ کراچی میں ووٹر فہرستوں کی تصدیق کا عمل فوج سے کرایا جائے، جس پر شہر کی سب سے بڑی جماعت ایم کیو ایم نے شدید احتجاج کیا ۔ پھر یہ عمل شروع ہوا تو فوج اور ایف سی اہلکار نظر نہ آنے پر ایم کیو ایم کی حریف سمجھی جانے والی تمام جماعتیں الیکشن کمیشن کے سامنے آ کھڑی ہوئیں۔

مسلم لیگ ن جس نے چیف الیکشن کمشنر کا نام تجویز کیا تھا آج وہی کراچی میں الیکشن کمیشن کی کارکردگی سے مطمئن نظر نہیں آرہی اور کراچی میں ووٹر لسٹوں کی تصدیق کے معاملے پر وہ دیگر 13 جماعتوں کے ہمراہ صوبائی الیکشن کمیشن کے سامنے دھرنے میں موجود رہی۔

تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے تو الیکشن کمیشن کو تحلیل کرنے اور از سر نو تشکیل کیلئے پورا لانگ مارچ کر دیا جس کے معاہدے پر حکومت سے اختلافات تاحال برقرار ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر قادری سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا بھی فیصلہ کرچکے ہیں۔

نگراں سیٹ اپ پر بھی سوالیہ نشان

قانونی طور پر چھ ہفتے بعد حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت سے نگراں سیٹ اپ کا قیام عمل میں آنا ہے۔ اس کیلئے بظاہر حکومت اور خاص طور پر اپوزیشن آپس میں مشاورت کرتی بھی نظر آرہی ہے۔ لیکن، ماہرین اس معاملے پر اتفاق رائے انتہائی مشکل مرحلہ قرار دے رہے ہیں۔ ایسے حالات میں جہاں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے درمیان شدید اختلاف رائے کا تاثر عام ہے، سیاسی جماعتوں کا جوڑ توڑ عروج پر ہے، وہاں اپوزیشن کی جانب سے دو ناموں پر اتفاق بھی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔

نئے صوبوں کا پنڈورا باکس

پنجاب کو تقسیم کرکے نئے صوبوں کے قیام سے متعلق بھی تمام سیاسی جماعتوں کا الگ موقف ہے۔ صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر اسپیکر قومی اسمبلی نے اس حوالے سے ایک کمیشن قائم کررکھا تھا اس میں بھی اب اختلافات سامنے آ گئے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کا مطالبہ ہے کہ ڈیرہ غازی خان کو مجوزہ صوبے بہاولپور جنوبی پنجاب میں شامل کرنے کے بجائے بلوچستان میں شامل کیا جائے۔ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کی تجویز ہے کہ خیبر پختونخواہ کے ہزارہ ڈویژن کو الگ صوبہ بنا دیا جائے جس کی اے این پی شدید مخالفت کر رہی ہے۔

اس کے ساتھ ہی مسلم لیگ ن کو بھی کمیشن اور اس کی سفارشات پر تحفظات ہیں۔

اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار کہتے ہیں کہ صوبائی اسمبلی نے جو قرارداد منظور کی تھی اس میں تو دو صوبوں، بہاولپور اور جنوبی پنجاب کا مینڈیٹ دیا گیا تھا، لیکن کمیشن ایک صوبہ بہاولپور جنوبی پنجاب کیسے بنا سکتا ہے؟ نیا صوبہ بنانے کیلئے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت چاہیئے جو مسلم لیگ ن کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ انہوں نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر پنجاب میں ایک صوبے کیلئے ایوان میں ترمیمی بل پیش کیا جاتا ہے تو وہ پنجاب میں دو اور ہزارہ صوبے کے قیام کیلئے بھی ترامیم قومی اسمبلی میں لے آئی گی۔
XS
SM
MD
LG