پاکستان کے وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف نے قومی مسائل کے حل اور استحکام کے لیے جمہوریت کے تسلسل کو ناگزیر قرار دیا ہے۔
یومِ آزادی کی مناسبت سے پیر کو اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ ماہرین پر مشتمل عبوری حکومت کا مطالبہ مسائل کا حل نہیں ہے۔
’’ہم سوچتے رہے کہ کوئی ٹیکنوکریٹ، بیوروکریٹ، یا سائنس دان اُٹھ کے اس ملک کو سنبھال لے گا ... نہیں بھائی یہ ممکن نہیں ہے، آپ اس کے تجربات کر چکے ہیں۔‘‘
وزیر اعظم نے سیاست دانوں کی کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے کا کوئی مخصوص طبقہ تن تنہا نا تو مسائل کی وجہ ہے اور نا ہی انھیں حل کر سکتا ہے۔
’’ہم سارے ایک ہی ہیں، ایک ہی مٹی کو گوندھ کر جیسے گھگو گھوڑے والے مختلف چیزیں بناتے ہیں ... جب وہ (کھلونا) گرتا ہے، تو شیر بھی اسی طرح ٹوٹتا ہے جیسے چڑیا، آپ نے دیکھا ہوگا۔‘‘
بعض ناقدین وزیر اعظم پرویز اشرف کے اس تشبیہاتی بیان کو بلواسطہ طور پر سپریم کورٹ کے لیے انتباہ بھی قرار دے رہے ہیں۔
ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے وزیر اعظم کو قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) عمل درآمد مقدمے میں توہین عدالت سے متعلق اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے 27 اگست کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے رکھا ہے۔
قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ راجہ پرویز اشرف کو اپنے پیش رو یوسف رضا گیلانی کی طرح اس مقدمے میں عدلیہ کی حکم عدولی پر پارلیمان سے نااہل قرار دیے جانے کا خطرہ ہے۔
اُدھر اٹارنی جنرل عرفان قادر نے پیر کو لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کو ملک کے منتظم اعلیٰ کے عہدے کے تقدس کا احترام کرنا چاہیئے۔
’’عدالت کو بھی ضبط کا مظاہرہ کرنا چاہیئے اور مجھے یقین ہے کہ عدالت قطعاً اس طرف انشااللہ نہیں جائے گی جس سے کہ ریاستی اداروں میں تصادم ہو۔‘‘
اٹارنی جنرل نے یہ بیان سابق وزیرِ اعظم گیلانی کے اس انتباہ کے ایک روز بعد دیا ہے کہ اگر پرویز اشرف کو بھی صدر آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ بد عنوانی کا مقدمہ بحال نا کروانے پر توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا تو حکمران پیپلز پارٹی اس فیصلے کی مزاحمت کرے گی۔
’’اگر یہ وزیرِ اعظم بھی چلے جاتے ہیں (تو) ہم مزاحمت کریں گے، نامناسب اور غیر آئینی قسم کا فیصلہ قابل قبول نہیں ہوگا ... یہ صرف میری آواز نہیں ہے، یہ 18 کروڑ عوام کی آواز ہے۔‘‘
یوسف رضا گیلانی کے بقول سوئس حکام کو خط لکھنے سے متعلق عدلیہ کی ہدایت غیر آئینی ہے کیوں کہ صدر زرداری کو ناصرف ملک میں بلکہ بیرون ملک بھی استثنیٰ حاصل ہے۔
یومِ آزادی کی مناسبت سے پیر کو اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ ماہرین پر مشتمل عبوری حکومت کا مطالبہ مسائل کا حل نہیں ہے۔
’’ہم سوچتے رہے کہ کوئی ٹیکنوکریٹ، بیوروکریٹ، یا سائنس دان اُٹھ کے اس ملک کو سنبھال لے گا ... نہیں بھائی یہ ممکن نہیں ہے، آپ اس کے تجربات کر چکے ہیں۔‘‘
وزیر اعظم نے سیاست دانوں کی کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے کا کوئی مخصوص طبقہ تن تنہا نا تو مسائل کی وجہ ہے اور نا ہی انھیں حل کر سکتا ہے۔
’’ہم سارے ایک ہی ہیں، ایک ہی مٹی کو گوندھ کر جیسے گھگو گھوڑے والے مختلف چیزیں بناتے ہیں ... جب وہ (کھلونا) گرتا ہے، تو شیر بھی اسی طرح ٹوٹتا ہے جیسے چڑیا، آپ نے دیکھا ہوگا۔‘‘
بعض ناقدین وزیر اعظم پرویز اشرف کے اس تشبیہاتی بیان کو بلواسطہ طور پر سپریم کورٹ کے لیے انتباہ بھی قرار دے رہے ہیں۔
عدالت کو بھی ضبط کا مظاہرہ کرنا چاہیئے اور مجھے یقین ہے کہ عدالت قطعاً اس طرف انشااللہ نہیں جائے گی جس سے کہ ریاستی اداروں میں تصادم ہو۔عرفان قادر
ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے وزیر اعظم کو قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) عمل درآمد مقدمے میں توہین عدالت سے متعلق اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے 27 اگست کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے رکھا ہے۔
قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ راجہ پرویز اشرف کو اپنے پیش رو یوسف رضا گیلانی کی طرح اس مقدمے میں عدلیہ کی حکم عدولی پر پارلیمان سے نااہل قرار دیے جانے کا خطرہ ہے۔
اُدھر اٹارنی جنرل عرفان قادر نے پیر کو لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کو ملک کے منتظم اعلیٰ کے عہدے کے تقدس کا احترام کرنا چاہیئے۔
’’عدالت کو بھی ضبط کا مظاہرہ کرنا چاہیئے اور مجھے یقین ہے کہ عدالت قطعاً اس طرف انشااللہ نہیں جائے گی جس سے کہ ریاستی اداروں میں تصادم ہو۔‘‘
اٹارنی جنرل نے یہ بیان سابق وزیرِ اعظم گیلانی کے اس انتباہ کے ایک روز بعد دیا ہے کہ اگر پرویز اشرف کو بھی صدر آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ بد عنوانی کا مقدمہ بحال نا کروانے پر توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا تو حکمران پیپلز پارٹی اس فیصلے کی مزاحمت کرے گی۔
’’اگر یہ وزیرِ اعظم بھی چلے جاتے ہیں (تو) ہم مزاحمت کریں گے، نامناسب اور غیر آئینی قسم کا فیصلہ قابل قبول نہیں ہوگا ... یہ صرف میری آواز نہیں ہے، یہ 18 کروڑ عوام کی آواز ہے۔‘‘
یوسف رضا گیلانی کے بقول سوئس حکام کو خط لکھنے سے متعلق عدلیہ کی ہدایت غیر آئینی ہے کیوں کہ صدر زرداری کو ناصرف ملک میں بلکہ بیرون ملک بھی استثنیٰ حاصل ہے۔