رسائی کے لنکس

توہین عدالت قانون: حکومت کی فُل کورٹ بینچ کی درخواست مسترد


سپریم کورٹ آف پاکستان
سپریم کورٹ آف پاکستان

چیف جسٹس نے مزید مہلت کی درخواست بھی یہ کہہ کر مسترد کر دی یہ مقدمہ انتہائی اہم ہے کیوں کہ اس کا تعلق عدلیہ کی آزادی سے ہے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے توہینِ عدالت سے متعلق نئے متنازع قانون کے خلاف دائر آئینی درخواستوں کی سماعت کا آغاز کرتے ہوئے حکومت، استغاثہ اور دیگر فریقین کو اپنے دلائل جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

اسلام آباد میں پیر کو ہونے والی ابتدائی سماعت میں درخواست گزاروں نے اس قانون سازی کو عدلیہ کی آزادی سلب کرنے اور انصاف کے بنیادی تقاضوں کے منافی قرار دیا۔

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے کارروائی شروع کی تو حکومت کے وکیل عبدالشکور پراچہ نے عدالت سے فُل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی یہ کہہ کر استدعا کی یہ ملک کی تاریخ کا انتہائی اہم مقدمہ ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اُنھیں ایک روز قبل ہی اس مقدمے میں وفاق کی نمائندگی کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور دلائل کی تیاری کے لیے اُنھیں وقت درکار ہوگا۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل عرفان قادر نے بھی تیاری کے لیے دو ہفتوں کی مہلت طلب کی۔

لیکن چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے عبدالشکور پراچہ کی درخواست کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ کسی بھی مقدمے کی سماعت کے لیے بینچ کی تشکیل عدالت کا استحقاق ہے۔

اُنھوں نے سرکاری وکیل اور استغاثہ کی مزید مہلت کی درخواستوں کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ مقدمہ انتہائی اہم ہے کیوں کہ اس کا تعلق عدلیہ کی آزادی سے ہے، اور اس پر جلد از جلد فیصلہ ہونا چاہیئے۔

چیف جسٹس نے فریقین کو جلد از جلد اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت منگل تک ملتوی کر دی۔

توہین عدالت سے متعلق آئینی مسودہ وزیرِ قانون فاروق حمید نائک نے متعارف کروایا تھا جسے پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں حزب اختلاف کے احتجاج کے باوجود انتہائی عجلت میں منظور کر لیا گیا اور 12 جولائی کو صدر آصف علی زرداری کے رسمی دستخط کے بعد یہ باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

لیکن روز اول سے اس کی حیثیت متنازع رہی ہے کیوں کہ اس کے تحت وزیر اعظم، وفاقی و صوبائی وزرا اور وزرائے اعلیٰ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران کیے گئے فیصلوں پر توہین عدالت سے متعلق عدلیہ کو جواب دہ نہیں ہوں گے۔

ناقدین کا ماننا ہے کہ اس قانون کا مقصد وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو تحفظ فراہم کرنا ہے، جن کے پیش رو یوسف رضا گیلانی کو صدر زرداری کے خلاف بیرون ملک مبینہ بدعنوانی کا مقدمہ بحال کروانے کے لیے سوئس حکام کو خط نا لکھنے پر عدلیہ کی حکم عدولی کی پاداش نااہلیت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

توہین عدالت کے نئے قانون کے خلاف مقدمہ اس لیے بھی اہمیت اختیار کر چکا ہے کیوں کہ سپریم کورٹ نے وزیر اعظم پرویز اشرف کو سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے 25 جولائی یعنی بدھ تک کی مہلت دے رکھی ہے۔

حکمران پیپلز پارٹی یہ کہہ چکی ہے کہ اس کا کوئی بھی وزیر اعظم اس سلسلے میں خط نہیں لکھے گا کیوں کہ مسٹر زرداری کو آئین کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔
XS
SM
MD
LG